پاکستان نے ایک بیان میں عمان کے دارالحکومت مسقط میں ہفتے کو ایران اور امریکہ کے درمیان ہونے والے مذاکرات کا خیر مقدم کیا ہے۔
پاکستانی دفتر خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ مذاکرات عمان کی مصالحانہ کوششوں کے تحت منعقد ہوئے۔
’پاکستان سمجھتا ہے کہ مکالمہ اور سفارت کاری خطے میں امن و استحکام کو فروغ دیں گے اور اختلافات اور تنازعات کو بات چیت اور باہمی احترام کی بنیاد پر حل کرنے کے مقصد کو آگے بڑھائیں گے۔
’ہم فریقین کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ وہ اس راہ پر گامزن رہیں۔‘
پاکستان نے ان مذاکرات کی میزبانی اور سہولت کاری پر سلطنت عمان کے قیمتی کردار کو سراہا ہے۔
امریکہ سے مذاکرات صرف جوہری معاملے اور پابندیاں ہٹانے پر ہوں گے: ایران
ایران کی وزارت خارجہ نے اتوار کو تصدیق کی کہ امریکہ کے ساتھ طے شدہ مذاکرات آئندہ ہفتے کے آخر میں ’بلاواسطہ‘ ہی رہیں گے، جن میں صرف ایٹمی معاملے اور پابندیاں ختم کرنے پر بات ہوگی، جبکہ عمان ثالثی کا کردار ادا کرتا رہے گا۔
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی اور امریکہ کے مشرق وسطیٰ کے ایلچی اسٹیو وٹکوف نے ہفتے کے روز عمان کے دارالحکومت مسقط میں ملاقات کی، جو کہ 2015 کے جوہری معاہدے کے ٹوٹنے کے بعد ایران اور امریکہ کے درمیان اعلیٰ سطح کے پہلے براہ راست نیوکلیئر مذاکرات تھے۔ فریقین نے سات دن بعد دوبارہ ملاقات پر اتفاق کیا ہے۔
ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی نے ایرانی سرکاری ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ’مذاکرات ان ڈائریکٹ ہی جاری رہیں گے، عمان ثالث کی حیثیت سے برقرار رہے گا، البتہ ہم آئندہ ملاقاتوں کی جگہ پر غور کر رہے ہیں۔‘
انہوں نے واضح کیا کہ مذاکرات کا محور صرف ’جوہری مسئلہ اور پابندیوں کا خاتمہ‘ ہو گا، اور ایران ’امریکہ کے ساتھ کسی اور موضوع پر بات چیت نہیں کرے گا۔‘
تجزیہ کاروں کے مطابق، امریکہ ان مذاکرات میں ایران کے بیلسٹک میزائل پروگرام اور اسرائیل مخالف عسکری گروپوں کے نیٹ ورک کی حمایت کو بھی شامل کرنا چاہتا تھا، مگر تہران نے اس امکان کو رد کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ وہ صرف اپنے جوہری پروگرام پر بات کرے گا۔
یاد رہے کہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018 میں ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان طے پانے والے 2015 کے نیوکلیئر معاہدے سے امریکہ کو یکطرفہ طور پر نکال لیا تھا، اور ایران پر وسیع اقتصادی پابندیاں دوبارہ عائد کر دی تھیں۔ ایران نے اس کے بعد ایک سال تک معاہدے پر عمل جاری رکھا، مگر بعد میں اس نے بھی اپنی ذمہ داریوں سے پیچھے ہٹنا شروع کر دیا۔
ایران مسلسل اس بات کی تردید کرتا آیا ہے کہ وہ جوہری ہتھیار حاصل کرنا چاہتا ہے۔
ہفتے کے روز ہونے والے یہ غیر معمولی مذاکرات ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب چند ہفتے قبل ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کو ایک خط بھیجا تھا، جس میں جوہری مذاکرات کی دعوت دی گئی تھی، ساتھ ہی فوجی کارروائی کی دھمکی بھی دی گئی تھی۔
ایران اور امریکہ دونوں نے ہفتے کے مذاکرات کو ’تعمیراتی‘ قرار دیا۔ ایران نے کہا کہ یہ بات چیت بلاواسطہ تھی اور عمان کے وزیر خارجہ ثالث تھے۔ تاہم ایرانی وزارت خارجہ نے انکشاف کیا کہ مذاکرات کے بعد عراقچی اور وٹکوف نے ’چند منٹوں کے لیے براہ راست بات بھی کی۔‘
اگلا دورِ مذاکرات ہفتہ، 19 اپریل کو ہوگا۔ صحافیوں سے ایئر فورس ون میں بات کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا: ’میرے خیال میں بات چیت ٹھیک جا رہی ہے، لیکن جب تک کوئی معاہدہ نہ ہو، کچھ بھی اہم نہیں۔‘
عمانی وزیر خارجہ بدر البوسعیدی نے ان مذاکرات کو ’دوستانہ ماحول‘ میں ہونے والا عمل قرار دیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایرانی کرنسی ریال کے غیر سرکاری ریٹ کو ٹریک کرنے والی متعدد ویب سائٹس نے اتوار کو رپورٹ کیا کہ ریال کی قدر میں بہتری آئی ہے اور وہ ایک امریکی ڈالر کے مقابلے میں 8,50,000 تک آ گیا ہے، جو پچھلے کچھ دنوں میں ایک ملین سے تجاوز کر گیا تھا۔
ایران اس وقت اسرائیل کے لبنان میں حزب اللہ اور غزہ میں حماس کے اتحادیوں پر حملوں کے تناظر میں شدید دباؤ میں ہے اور وسیع پیمانے پر عائد اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے اپنی معیشت کو سہارا دینے کے لیے ریلیف کا خواہاں ہے۔
ایران نے اگرچہ ٹرمپ کی ’زیادہ سے زیادہ دباؤ‘ کی پالیسی، پابندیوں میں شدت اور بار بار فوجی دھمکیوں پر تنقید کی ہے، تاہم اس کے باوجود ان مذاکرات پر آمادگی ظاہر کی ہے۔
ایرانی میڈیا نے اتوار کو ان شاذونادر ہونے والے مذاکرات کا خیرمقدم کرتے ہوئے انہیں ایران-امریکہ تعلقات میں ’فیصلہ کن موڑ‘ قرار دیا۔
قدامت پسند روزنامہ ’جوان‘ نے امریکہ کی جانب سے ’غیر جوہری موضوعات پر بات نہ کرنے‘ کے فیصلے کو سراہا۔ سرکاری اخبار ’ایران‘ نے وزیر خارجہ عراقچی کا حوالہ دیتے ہوئے مذاکرات کو ’تعمیراتی اور باعزت‘ قرار دیا۔
اصلاح پسند روزنامہ ’شرق‘ نے اسے ایران-امریکہ تعلقات میں ’فیصلہ کن موڑ‘ قرار دیا۔
دوسری طرف، سخت گیر موقف رکھنے والا روزنامہ ’کیہان‘ جو مذاکرات سے قبل شکوک و شبہات کا اظہار کر رہا تھا، اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ ایران کے پاس ’کوئی متبادل منصوبہ (پلان بی)‘ موجود نہیں، جبکہ ٹرمپ کے ساتھ کسی معاہدے کے واضح امکانات بھی نہیں ہیں۔
واضح رہے کہ ایران اور امریکہ کے درمیان 1979 کے اسلامی انقلاب کے فوراً بعد، جس میں مغرب نواز شاہ کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا تھا، سے اب تک سفارتی تعلقات منقطع ہیں۔ ایران نے اکثر ماضی کے تجربات اور اعتماد کے فقدان کا حوالہ دیتے ہوئے امریکہ سے بات چیت میں محتاط رویہ اپنایا ہے۔