لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شجاعت علی خان کی عدالت میں آصف جاوید نامی شہری کی طرف سے نوکری بحالی مقدمے کی درخواست کی منگل کو ہونے والی سماعت کے بعد عدالت کے احاطے ہی میں آصف نے خود کو آگ لگا لی۔
وکیل اطہر عزیز چوہدری نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ ’آصف جاوید خانیوال کے رہائشی ہیں، انہوں نے ہائی کورٹ میں اپنے مقدمے کی پیروی کے لیے مظہر الٰہی کو اپنا وکیل مقرر کیا تھا مگر آج انہوں نے اپنا وکیل تبدیل کر کے مقدمے کی پیروی مجھے سونپی۔
’مقدمے کی سماعت کے دوران میں نے جسٹس شجاعت علی خان سے درخواست کی کہ میں آج ہی وکیل مقرر ہوا ہوں لہذا تیاری اور وکالت نامہ جمع کرانے کے لیے کچھ وقت دیا جائے، عدالت نے وقت دیتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’عدالت سے باہر نکلتے ہیں آصف نے ہائی کورٹ کے احاطے میں ہی خود کو آگ لگا لی۔ وہاں پر موجود دیگر سائلین، وکلا اور پولیس نے فوری طور پر ان پر پانی پھینک کی آگ بجھانے کی کوشش کی جس کے لیے ہائی کورٹ میں موجود آگ بجھانے والے آلات بھی استعمال کیے گئے۔
’اسی دوران ریسکیو 1122کو کال کی گئی انہوں نے فوری آکر آگ سے جھلسنے والے آصف کو ہسپتال منتقل کر دیا، جہاں انہیں طبی امداد دی جا رہی ہے۔‘
مقدمے کی تفصیلات
لاہور ہائی کورٹ میں موجود ریکارڈ کے مطابق آصف جاوید نیسلے کمپنی میں نوکری کرتے تھے۔ کمپنی نے 2016 میں انہیں ملازمت سے برطرف کر دیا۔ جس کے خلاف آصف نے لیبر کورٹ سے رجوع کیا اور اپنی بحالی کا مقدمے دائر کر دیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لیبر کورٹ نے 2019 میں ان کی برطرفی کالعدم قرار دے کر نوکری بحال کرنے کا فیصلہ سنایا جسے نیسلے کمپنی کی جانب سےلیبر کورٹ کے اس فیصلے کو نیشنل انڈسٹریل ریلیشن کمیشن میں چیلنج کرتے ہوئے اپیل دائر کر دی۔
23 نومبر 2020 کو نیشنل انڈسٹریل ریلیشن نے بھی لیبر کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے کمپنی کی اپیل خارج کر دی۔
ریکارڈ کے مطابق نجی کمپنی نے آصف جاوید کو نوکری پر بحال کرنے کی بجائے لاہور ہائی کورٹ میں لیبر کورٹ کے فیصلے کے خلاف 2020میں اپیل دائر کر رکھی ہے تاہم اس اپیل پر تاحال کوئی فیصلہ نہیں ہو سکا۔
آج منگل کو عدالت نے وکیل کی جانب سے وکالت نامہ جمع کروانے کی مہلت مانگنے پر سماعت آٹھ اپریل تک ملتوی کی۔
عدالتوں میں مقدمات کا التوا
عدالتوں میں مقدمات کے التوا سے متعلق اعلی عدالتوں کے ججز اکثر و بیشتر مختلف تقاریب میں تحفظات کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔
سابق صدر ہائی کورٹ بار مقصود بٹر نے انڈیپینڈنٹ اردو سے اس موضوع پر گفتگو میں کہا کہ ’چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس عالیہ نیلم کی زیرِ صدارت 20جنوری کو فل کورٹ اجلاس میں لاہور ہائی کورٹ اور ضلعی عدلیہ میں مقدمات کے حوالے سے تفصیلی رپورٹ پیش کی گئی۔
’اس رپورٹ کے مطابق، 2024 کے دوران 38 لاکھ سے زائد مقدمات کے فیصلے کیے گئے۔ لاہور ہائی کورٹ اور علاقائی بنچوں پر زیر التوا مقدمات کی تعداد ایک لاکھ 98 ہزار ہے۔ جبکہ ضلعی عدلیہ میں 14 لاکھ94 ہزار ہے، جن میں بیشتر کئی کئی سال سے زیر سماعت ہیں۔‘
سابق صدر ہائی کورٹ بار مقصود بٹر کے بقول: ’پاکستان کی عدالتوں میں مقدمات کا کئی کئی سال چلنا معمول کی بات ہے۔ آصف جاوید نامی شہری انصاف میں تاخیر پر مایوس ہونے والے پہلے یا آخری سائل نہیں ہیں بلکہ سبھی شہریوں کو یہ شکایات ہیں۔
’کچھ عرصہ پہلے سپریم کورٹ نے محمد اسحاق نامی ملزم کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے مقدمے سے 23 سال بعد بری کیا۔ اس مقدمے میں ملزم پر 2002 میں میرپور خاص میں چچا چچی اور تین بیٹوں کو قتل کرنے کا الزام تھا اور سیشن کورٹ نے پانچ بار پھانسی اور دو، دو لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا تھا۔ سندھ ہائی کورٹ نے بھی ٹرائل کے بعد ملزم کی سزا برقرار رکھنے کا حکم دیا تھا لیکن 23 سال بعد سپریم کورٹ سے ثابت ہوا کہ وہ تو بے گناہ ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’سپریم کورٹ اور وزارت قانون کو بروقت انصاف کی فراہمی یقینی بنانے کے موثر اقدمات فوری اٹھانے چاہییں تاکہ عوام کا کا نظام عدل پر اعتماد بڑھے اور مایوسی ختم ہو۔‘