چمن: پاکستان، افغانستان سرحد جہاں گاؤں تقسیم مگر دل جڑے ہیں

چمن کے مقام پر ایسے دس گاؤں ہیں جہاں رہنے والوں کے آدھے رشتہ دار پاکستان اور  آدھے افغانستان میں رہائش پذیر ہیں، جبکہ کچھ کے تو آدھے گھر بھی پاکستان اور افغانستان میں ہیں۔

پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر واقع چمن کے مقام  پر تصدق گیٹ نامی گزرگارہ کی خاص بات یہ ہے کہ وہاں 10 ایسے گاؤں ہیں جو آدھے پاکستان میں اور آدھے افغانستان میں ہیں۔

ان دس گاؤں میں رہنے والوں کے آدھے رشتہ دار پاکستان اور  آدھے افغانستان میں رہائش پذیر ہیں، جبکہ کچھ کے تو آدھے گھر بھی پاکستان اور افغانستان میں ہیں۔

شمالی بلوچستان کی 870 کلومیٹر طویل سرحد افغانستان سے ملتی ہے جہاں چمن بارڈر کراسنگ بھی واقع ہے جسے باب دوستی یا دوستی کا دروازہ کہتے ہیں جو 5.5 کلومیٹر طویل ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو نے گاؤں کے مقامی افراد سے بات چیت کی اور جاننے کی کوشش کی کہ ان کی آمدورفت کے لیے کون سے دستاویزات ضروری ہیں؟ ان کا آنا جانا کیسے ہوتا ہے اور باڑ لگنے سے ان کی زندگی پر کتنا فرق پڑا ہے؟

گاؤں کے رہائشی حکمت اللہ نے بتایا کہ ’پہلے تو بہت آسانی تھی یہ باڑ نہیں تھی تو شناختی کارڈ پر عام لوگ، عورتیں اور مریض وغیرہ بھی آتے جاتے تھے۔

’اب تو اس طرح نہیں ہے بہت مشکل ہے۔ ہماری بیٹی ہے اس کا شناختی کارڈ اس سرحدی گاؤں کا نہیں ہے اس کا شناختی کارڈ چمن کا ہے اس لیے وہ تصدق گیٹ سے آ جا نہیں سکتی بلکہ اسے ویزہ لگوا کر افغانستان جانا پڑے گا۔‘

حکمت اللہ  کہتے ہیں کہ ’ایف سی والے کسی اور گاؤں کے شناختی کارڈ کو تصدق گیٹ سے نہیں جانے دیتے۔ یہ گیٹ صرف ان لوگوں کے لیے ہے جو اس سرحدی گاؤں کے رہائشی ہیں اور ان کے شناختی کارڈ پر اس گاؤں کا پتہ درج ہے، یہ مسئلے ہیں۔‘

ایک اور مقامی شخص لقمان نے کہا کہ ’کوئی مر جائے اور جنازہ ہو تو کبھی ادھر پاکستان میں دفن کرتے ہیں کبھی افغانستان میں دفن کرتے ہیں، چونکہ کچھ قبرستان اس طرف اور کچھ اس طرف ہیں۔ میرے ابو اس طرف اور بیٹی پاکستان میں ہے تو میں تو پاکستان اور افغانستان کے درمیان بٹا ہوا ہوں۔‘

ایف آئی اے انسپیکٹر نعمت اللہ خان نے بتایا کہ ’تصدق گیٹ سے صرف گاؤں کے لوگوں کو شناختی کارڈ پر افغانستان آنے جانے کی اجازت ہے جبکہ اس کے علاوہ سفر کرنے والے افراد کے لیے پاسپورٹ اور ویزہ دستاویزات کی شرط ہے۔‘

چمن سرحد پر ویزہ اور پاسپورٹ کی عمل داری:

نومبر 2023 میں حکومت پاکستان نے آمدورفت کے لیے پاکستان افغانستان سرحد پر پاسپورٹ اور ویزہ لازمی قرار دیا تھا۔

اس پر مقامی افراد نے نو ماہ احتجاج کیا اور اس دوران دو طرفہ تجارت بھی بند رہی لیکن مذاکرات کے بعد دستاویزات کی عمل داری مختلف شرائط پر بحال کر دی گئی۔

ڈی سی چمن حبیب احمد بنگلزئی نے بتایا کہ ’دھرنا کے شرکا کے کچھ مطالبات تھے جس میں صحت، تعلیم اور روزگار کا حصول شامل تھا۔ تو حکومت نے اس سلسلے میں چمن ٹاسک فورس تشکیل دی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’چیف سیکرٹری بلوچستان نے خود ٹاسک فورس کی نگرانی کی۔ سب کی انتھک کاوشوں کے بعد اب روزانہ کی بنیاد پر پاسپورٹ اور ویزہ کے ساتھ سرحد پار آتے جاتے ہیں۔‘

ڈی سی چمن بتاتے ہیں کہ ’اب دن میں چھ ہزار لوگ پاسپورٹ اور ویزہ پر آتے جاتے ہیں۔ جب پاسپورٹ کی شرط نہیں تھی تب تقریباً بیس ہزار کے قریب آمدورفت ہوتی تھی۔ حکومت نے ابتدائی طور پر چھ ہزار پاسپورٹس فری بنا کر دیے ہیں جبکہ یہ فری پاسپورٹس کا ہدف دس ہزار تک کا ہے۔‘

چمن سرحد پر دستاویزات چیکنگ کا کیا طریقہ کار ہے اور حکومتی پالیسی پر کیسے عمل درآمد ہو رہا ہے؟

اس سوال کے جواب میں چمن سرحد امیگریشن ڈیوٹی پر مامور ایف آئی اے انسپیکٹر نعمت اللہ خان نے بتایا کہ وہ مسافر جن کے پاس معیاد کے ساتھ پاسپورٹ اور ویزہ موجود ہے ان کی چیکنگ کرتے ہیں اور پروفائلنگ کر کے پھر امیگریشن کرتے ہیں۔

مریضوں کے لیے کیا سہولت میسر ہے؟ اس سوال کے جواب میں ایف آئی اے انسپیکٹر نے بتایا کہ ’جو مریض افغانستان سے ہمارے پاس آتے ہیں ان کے لیے حکومت پاکستان نے سہولت رکھی ہے۔ ایف سی کے صحت مرکز کے کیمس بھی یہاں چمن سرحد پر لگے ہیں جہاں مریضوں کو چیک کر کے مفت ادویات دی جاتی ہیں۔‘

چمن کے مقامی نوجوان محمد علی اچکزئی جو سوشل ایکٹیوسٹ بھی ہیں نے کہا کہ ’دستاویزات سے پہلے سمگلروں کو بہت سہولت تھی جو اب ختم ہو گئی ہے۔

’چمن کے نوجوان چاہتے ہیں کہ ان کے لیے کاروبار کے مواقع ہوں بارڈر مارکیٹس دونوں اطراف میں ہونی چاہیے تاکہ مقامی افراد کے لیے کاروبار کرنے کے لیے قانونی طور پر آسانی پیدا ہو۔‘

چمن سرحد پر تجارت کا حجم:

روزانہ کی بنیاد پر چمن سرحد پر دو طرفہ تجارت کتنی ہے، طریقہ کار کیا ہے، ون ڈاکومنٹ رجیم سے کتنا فرق پڑا ہے؟

صدر چیمبر ایسوسی ایشن چمن عمران کاکڑ نے بتایا کہ ’فریش فروٹ کا سیزن مئی سے نومبر کے دوران روزانہ کی بنیاد پر 500 یا 600 ٹرک افغانستان آتے جاتے ہیں۔ جبکہ سردیوں کا سیزن جسے ہم آف سیزن کہتے ہیں اس میں روزانہ کی بنیاد پر 200 کے لگ بھگ ٹرک آتے جاتے ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’ون ڈاکومنٹ رجیم جب نافذ کیا گیا تو مقامی تاجروں نے دھرنا دیا احتجاج کیا جس کے باعث نو ماہ دو طرفہ تجارت رکی رہی لیکن مذاکرات کے بعد تجارت بحال ہو گئی ہے اور تاجر اب سفری دستاویزات بنا رہے ہیں۔‘

مقامی ٹرک ڈرائیورز نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے تجارتی دستاویز بنوا لیے ہیں جس کے تحت وہ افغانستان سامان لے کر جاتے ہیں وہاں کچھ دن رک کر ادھر سے سامان پاکستان لاتے ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ اس دوران انہیں کسٹم کے ساتھ ساتھ سکیننگ کے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ جب ایف سی سکیورٹی کلیئر کر دیتی ہے اس کے بعد کسٹم حکام ٹرک کو سامان آگے لے جانے کی اجازت دیتے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان