سیالکوٹ پولیس نے کہا ہے کہ فروری 2025 کے دوران ضلع بھر کے مختلف مقامات سے پانچ نومولود بچیوں کی نعشیں کچرے کے ڈھیر سے ملی ہیں۔
سیالکوٹ پولیس کے ترجمان ملک وقاص نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا: ’سیالکوٹ پولیس نے ان بچیوں کے کیسسز کی تحقیقات کے لیے دو ٹیمیں تشکیل دے دی ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’پہلی لاش چھ فروری کو ملی، دوسری لاش آٹھ فروری کو، ایک 18 فروری اور 21 فروری کو دو نعشیں ملیں۔
’تین نعشیں تھانہ سیالکوٹ چھاؤنی کی حدود میں تھروٹا سعیداں، ڈالو والی اور بیڑ پلی کے علاقے سے ملیں جبکہ دو نعشیں تھانہ صدر سیالکوٹ کی حدود سے ملیں جن میں سے ایک ڈسکہ روڈ اور پسرور روڈ سے ملیں ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پانچوں نعشیں نو مولود بچیوں کی تھیں اور ان میں سے کوئی بھی زندہ نہیں تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ملک وقاص نے بتایا کہ ’ریسکیو 1122 کو ان بچیوں کے حوالے سے مقامی افراد نے اطلاع دی جس کے بعد ریسکیو 1122 نے پولیس کو مطلع کیا، جس کے بعد ہم نے نعشوں کو تحویل میں لے کر اپنی مدعیت میں دفعہ 329 کے تحت مقدمات درج کیے۔
ملک وقاص کا کہنا تھا: ’سیالکوٹ پولیس نے مزید تحقیقات کرنے اور مجرمان تک پہنچنے کے لیے دو ٹیمیں تشکیل دی ہیں جن میں دو ڈی ایس پیز شامل ہیں، ایک ڈی ایس پی سٹی سرکل طارق محمود اور ایک ڈی ایس پی صدر سرکل نعمان کے زیر نگرانی ٹیمیں کام کریں گی۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’اس مقدمے میں تفتیش کے لیے مقامی میٹرنٹی ہومز کے ریکارڈ چیک کیے جارہے ہیں، علاقوں میں دائیوں سے تفتیش کی جارہی ہے اس کے علاوہ محکمہ صحت کو مطلع کیا گیا ہے تاکہ وہ اپنے تحت اس مقدمے میں تحقیقات کا دائرہ وسیع کرے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اس کے علاوہ چھاؤنی کے علاقے، جہاں کیس رپورٹ ہوئے، وہاں کی سی سی ٹی وی فوٹیج کو بھی قبضے میں لے لیا گیا ہے اور دیکھا جا رہا ہے کہ کس طرح یہ بچے کچرے کے ڈھیر تک پہنچے۔‘
وقاص ملک کا کہنا تھا کہ ’اتنی بڑی تعداد میں اتنے کم عرصے میں نومولود بچوں کی لاشیں ملنا پہلی بار ہوا ہے، ایسے واقعات پہلے بھی ہوتے ہیں لیکن سال یا چھ مہینے میں ایک بار۔‘
سیالکوٹ کے علاوہ رواں برس لاہور سے بھی ایسے متعدد کیسسز رپورٹ ہوئے جن میں نومولود بچوں کو پھینک دیا گیا۔
ریسکیو 1122 کی جانب سے رپورٹ ہونے والے کیسسز میں نو جنوری 2025 کو لاہور کے حاکم چوک باگڑیاں سے نومولود بچے کی نعش برآمد ہوئی۔
16 جنوری کو لاہور کے علاقے آشیانہ روڈ حاکم چوک شمع کالونی سے نومولود بچہ ملا جو زندہ تھا جسے ہسپتال منتقل کیا گیا جسے بعد ازاں چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو نے اپنی تحویل میں لے لیا۔
17 جنوری 2025 کو لاہور کے علاقے پکی ٹھٹی سمن آباد سے نومولود بچی کی نعش ملی۔
31 جنوری کو گجومتہ کے علاقے کے ایک زیر تعمیر گھر سے ایک بوری میں ایک زندہ نومولود بچی ملی جسے ہسپتال منتقل کیا گیا، بعد ازاں اسے چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفئیر بیورو پہنچا دیا گیا۔
27 فروری کو بھی لاہور کے علاقہ غازی روڈ سے ایک نومولود بچی کی نعش برآمد ہوئی تھی۔
چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو کی چیئر پرسن سارہ احمد نے انڈپینڈنتٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’ایسے کیسسز میں زیادہ تر کالز ریسکیو 1122 یا پولیس کو جاتی ہیں، جب بچے یا بچی کے بچنے کا امکان ہو اور ان کی حالت مستحکم ہو تب ہم سے رابطہ کیا جاتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ زیادہ تر وہ بچے ہوتے ہیں جن کے والدین کو ان کی ضرورت نہیں ہوتی یا والد ہوتے ہی نہیں، یہ صرف والدہ کی ذمہ داری ہوتے ہیں۔
’ایسے بچوں کو پیدا کر کے انہیں کسی بیک یا کپڑے میں ڈال کر پھینک دیا جاتا ہے، بچے چونکہ نومولود ہوتے ہیں اس لیے ان میں سے زیادہ تر زندہ نہیں بچ پاتے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’چونکہ یہ بچے رات کے اندھیرے میں پھینکے جاتے ہیں اس لیے پھینکنے والے کا معلوم کرنا انتہائی مشکل کام ہوتا ہے۔
سارہ احمد کے مطابق ’جو بچے مستحکم ہوتے ہیں وہ چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو میں آتے ہیں جن کو ہم عدالت کے ذریعے قانوناً تحویل میں لیتے ہیں اور ان کی پرورش کی جاتی ہے، جہاں تک ان کے مستقبل کا تعلق ہے تو اس کا بھی ایک باقاعدہ عدالتی طریقہ کار ہے جس کے تحت زیادہ تر بچے بےاولاد والدین کو پوری جانچ پڑتال کے بعد گود دے دیے جاتے ہیں۔‘
سماجی کارکن اور بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ادارے ساحل کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر منیزے بانو نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا: ’نومولود بچی کو ضائع کر دینے یا پھینک دینے میں بہت سے عوامل پائے جاتے ہیں جن میں سب سے پہلے بیٹے کا پیدا نہ ہونا اور صرف بیٹیوں کی پیدائش ہے۔
’دوسری وجہ یہ ہوتی ہے کہ بچہ شادی کے بغیر پیدا ہوا ہو تب کہا جاتا ہے کہ اسے ضائع کر دیا جائے کیونکہ ایسے حالات میں نہ معاشرہ قبول کرتا ہے نہ گھر والے تعاون کرتے ہیں، ایسے حالات میں ایسے بچوں کو پھینک دیا جاتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ایک یہ بھی وجہ ہوتی ہے کہ آپ کے دس بچے ہو گئے ہیں اور آپ کی کوئی فیملی پلاننگ ہی نہیں ہے ایسے میں بھی لوگ بچہ پھینک دیتے ہیں کیونکہ ان کے پاس وسائل ہی نہیں ہوتے۔‘
منیزے کا کہنا تھا کہ ’یہ سب عوامل سماجی رویے کی عکاسی کرتے ہیں اور ان کا تبدیل ہونا ضروری ہے۔ خواتین کے لیے کوئی سپورٹ نہیں ہے وہ دوسروں پر انحصار کر رہی ہوتی ہیں کیونکہ وہ خود مختار نہیں ہوتیں اور ان پر بیٹا پیدا کرنے کا دباؤ بہت زیادہ ہوتا ہے۔
’بیٹیاں پیدا ہونے پر شوہر انہیں طلاق دینے کو تیار ہو جاتے ہیں، یہ سب سماجی تبدیلی ہے جو ذہن میں پیدا ہونا ضروری ہے اور اس لیے اگر صحیح تعلیم دی جائے جس میں لوگوں کو سوچنے پر مجبور کریں کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط ہے تو شاید کچھ تبدیلی آجائے۔‘