بچیوں کو آج بھی بوجھ سمجھا جاتا ہے: قومی کمیشن برائے وقار نسواں

آج دنیا بھر میں ’بچیوں کا عالمی دن‘ منایا جا رہا ہے، جس کا مقصد کم عمر لڑکیوں کے حقوق سمیت ان کے منفرد نوعیت کے مسائل و مشکلات کی نشاندہی کرنا ہے۔

لاہور کی ایک کچی آبادی کے قریب بچیاں 4 مارچ، 2015 کو کھیلتے ہوئے (اے ایف پی)

’اکثر خواتین بیٹے کی خاطر زیادہ بچے پیدا کرنے پر اصرار کرتی ہیں۔ ڈاکٹرز انہیں منع کرتے ہیں کہ مزید بچے پیدا کرنا ان کے لیے ٹھیک نہیں لیکن بیٹے کی امید میں وہ اپنی زندگی کو خطرے میں ڈالنے پر تیار ہو جاتی ہیں۔‘

یہ کہنا تھا خیبر پختونخوا کے ایک بڑے سرکاری ہسپتال میں تعینات گائناکالوجسٹ ڈاکٹر بشریٰ رؤف کا، جن سے انڈپینڈنٹ اردو نے بدھ (11 اکتوبر) کو دنیا بھر میں منائے جانے والے ’بچیوں کے عالمی دن‘ کے حوالے سے گفتگو کی۔

ڈاکٹر بشریٰ رؤف نے کہا: ’بطور ڈاکٹر میں نے دیکھا ہے کہ اکثر شوہر اور ساس ہی بچی کے پیدا ہونے پر افسوس کا اظہار اور متعصبانہ رویے اختیار کرتے ہیں۔‘ 

اقوام متحدہ کے فنڈ برائے آبادی سرگرمیاں (یو این ایف پی اے) کی ڈائریکٹر ڈاکٹر نتالیہ کے مطابق: ’ایک بچی کے ساتھ پہلی ناانصافی اس وقت ہوتی ہے جب وہ اس دنیا میں پہلا سانس لیتی ہے، صرف اس لیے کہ وہ لڑکی ہوتی ہے۔‘

ڈاکٹر بشریٰ رؤف نے کہا کہ ایسے شوہر بھی ہوتے ہیں جو بچی کے پیدا ہوتے ہی ہسپتال میں ہنگامہ شروع کر دیتے ہیں۔’بیوی ابھی ہوش میں بھی نہیں آئی ہوتی۔ وہ ایک تکلیف دہ مرحلے سے گزری ہوتی ہے اور باہر یہ ہنگامہ ہو رہا ہوتا ہے۔ حالانکہ جس میں عورت کا کوئی قصور بھی نہیں ہوتا۔‘

انڈپینڈنٹ اردو نے ہسپتال کے زچہ و بچہ وارڈ میں موجود حاملہ خواتین اور ماؤں سے بھی بات کی، جنہوں نے اپنی اپنی روداد سنائی اور زیادہ خواتین نے معاشرتی دباؤ کا ذکر کیا۔

انہوں نے کہا کہ نہ صرف شوہر بلکہ خواتین بھی ان پر اولادِ نارینہ پیدا کرنے کا دباؤ ڈالتی ہیں۔

گائنی وارڈ میں آسیہ نامی ایک ایسی خاتون بھی تھیں، جنہوں نے بتایا کہ بیٹے کی خواہش کے باوجود انہوں نے چار بیٹیوں کو ان کے تمام حقوق دیے ہیں۔

’میرا بیٹا نہیں ہوا۔ میری چار لڑکیاں ہیں، جو ہم میاں بیوی کو بہت عزیز ہیں۔ ہمیں لوگ کہتے ہیں کہ بچیوں کو اچھے سکولوں میں پڑھانے اور نیا گھر بنانے کا کیا فائدہ ہے کہ جب بیٹا نہیں اور لڑکیاں پرائے گھر چلی جائیں گی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بچیوں کے عالمی دن کی مناسبت سے قومی کمیشن برائے نسواں نے بچوں کے عالمی ادارے یونیسف کے تعاون سے ایک کانفرنس کا انعقاد کیا جس میں بچیوں کے دیگر حقوق سمیت کم عمری کی شادی پر بھی بات ہوئی۔

کمیشن کی چیئر پرسن نیلوفر بختیار نے اس موقع پر کہا کہ یہ دن منانے کا مقصد لڑکیوں کو بااختیار بنانا اور ان کی ضرورتوں کی نشاندہی کرنا ہے۔

’ہماری بڑی کامیابی یہ ہو گی کہ پاکستان میں کوئی بھی بچی تعلیم سے محروم نہ رہے۔ ہمارے معاشرے میں آج بھی لڑکیوں کو ایک بوجھ سمجھا جاتا ہے اور انہیں لڑکوں کے برابر نہیں سمجھا جاتا۔‘

لڑکیوں کے عالمی دن کا پس منظر

لڑکیوں کے حقوق اور مسائل اجاگر کرنے اور ان کی آواز بننے کا آغاز 1995 میں چین کے شہر بیجنگ سے ہوا، جب خواتین کے حوالے سے ایک عالمی کانفرس ہو رہی تھی۔

کانفرنس میں پہلی مرتبہ لڑکیوں کے حقوق کو بھی برابر حیثیت دینے کو زیر بحث لایا گیا، جسے تمام ممالک نے تسلیم کیا۔

باضابطہ طور پر ایک عالمی دن مقرر کرنے کا فیصلہ 2011 میں ہوا اور اقوام متحدہ نے 11 اکتوبر کو بچیوں کا عالمی دن قرار دیا۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹیونیو گتریش نے اس پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ بچیاں اور خواتین ایک منصفانہ معاشرہ تخلیق کرتی ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین