امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے فلسطینیوں کو دی گئی تازہ دھمکیوں پر حماس نے سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’قیدیوں کی رہائی کے لیے بہترین راستہ فائر بندی کے دوسرے مرحلے پر عمل درآمد اور اسرائیل کو ثالثوں کی زیر نگرانی معاہدے کی پاسداری پر مجبور کرنا ہے۔‘
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق حماس نے کہا کہ ٹرمپ کے بیانات اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو کو غزہ میں محاصرے کو مزید سخت کرنے اور جنگ بندی معاہدے سے پیچھے ہٹنے کا جواز فراہم کر رہے ہیں۔
بدھ کو ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر ایک بیان جاری کیا جس میں حماس سے مطالبہ کیا گیا کہ تمام قیدیوں کو فوراً رہا جائے۔
انہوں نے متنبہ کیا کہ ’اگر ایسا نہ کیا گیا تو تمہارے لیے یہ سب کچھ ختم ہو جائے گا۔‘
ٹرمپ کے دھمکی آمیز بیانات ایسے وقت میں آئے جب اطلاعات کے مطابق امریکی حکومت کے ایک ایلچی نے حماس سے خفیہ مذاکرات کیے ہیں، جو کہ ایک روایتی امریکی پالیسی سے انحراف ہے جس کے تحت واشنگٹن حماس کو ایک انتہا پسند تنظیم قرار دیتا ہے اور اس سے مذاکرات نہیں کرتا۔
مصری اور قطری ثالثی کے ذریعے ہونے والے ان مذاکرات میں امریکی قیدیوں کی رہائی اور جنگ بندی کے دوسرے مرحلے پر بات چیت ہوئی، تاہم اس بارے میں امریکی حکام نے کوئی سرکاری بیان نہیں دیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اقوام متحدہ میں مقبوضہ فلسطینی علاقوں کے لیے خصوصی مندوب فرانسسکا البانیزے سمیت انسانی حقوق کے عالمی اداروں نے ٹرمپ کے ان بیانات کی مذمت کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’یہ دھمکیاں اجتماعی سزا کی ترغیب ہیں، جو بین الاقوامی قوانین کے تحت غیر قانونی ہے۔‘
حماس کے ترجمان عبد اللطیف القانوع نے روئٹرز کو دیے گئے پیغام میں کہا: ’ٹرمپ کی ہمارے لوگوں کو بار بار دھمکیاں، نتن یاہو کو فائر بندی معاہدے سے نکلنے اور غزہ پر مزید سخت محاصرہ اور قحط مسلط کرنے کا موقع فراہم کر رہی ہیں۔‘
انہوں نے کہا: ’قیدیوں کی رہائی کے لیے بہترین راستہ فائر بندی کے دوسرے مرحلے پر عمل درآمد اور اسرائیل کو ثالثوں کی زیر نگرانی معاہدے کی پاسداری پر مجبور کرنا ہے۔‘
حماس کے عسکری ونگ کے ترجمان ابو عبیدہ نے ٹی وی خطاب میں کہا: ’اسرائیل کی جنگ کی دھمکیاں یا محاصرہ قیدیوں کی رہائی کو یقینی نہیں بنا سکتا۔ دشمن کو جنگ اور محاصرے سے مایوسی کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’ہمارے پاس تمام باقی ماندہ اسرائیلی قیدیوں کے زندہ ہونے کے واضح شواہد موجود ہیں۔ اگر اسرائیل نے غزہ پر مزید حملے کیے تو ممکن ہے کہ کچھ قیدی ہلاک ہو جائیں، جیسا کہ پہلے بھی کئی واقعات میں ہو چکا ہے۔‘
جنوری میں طے پانے والے غزہ جنگ بندی معاہدے کے تحت قیدیوں کی رہائی کا دوسرا مرحلہ طے شدہ تھا، جس کے دوران مسلح تنازعے کے مکمل خاتمے کے حتمی منصوبے پر بات چیت ہونا تھی۔ تاہم، اسرائیل نے پہلا مرحلہ ختم ہونے کے بعد تمام اشیا کی مکمل ناکہ بندی عائد کر دی اور باقی قیدیوں کی غیر مشروط رہائی کا مطالبہ شروع کر دیا کیا۔
فلسطینی حکام کا کہنا ہے کہ 23 لاکھ آبادی والے غزہ میں ناکہ بندی کی وجہ سے شدید غذائی قلت پیدا ہو رہی ہے، جو قحط کی شکل اختیار کر سکتی ہے۔