’استعفیٰ دینے کی وجہ غزہ ہے‘: بی بی سی کی سابق صحافی کا انکشاف

کرشمہ پٹیل لکھتی ہیں کہ بی بی سی ہند رجب کے ساتھ ناانصافی کا مرتکب ہوا اور اس نے فلسطینی بچوں کو ایک بار پھر اُس وقت نظر انداز کیا، جب اس نے بیرونی دباؤ کے باعث غزہ پر ایک دستاویزی فلم ہٹا دی۔

29  جنوری 2024 کو غزہ شہر میں ایک عمارت کے باہر بی بی سی کے خلاف بینرز آویزاں ہیں جن پر برطانوی نشریاتی ادارے پر اسرائیلی جرائم میں ساتھ دینے کا الزام لگایا گیا ہے (اے ایف پی)

برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی) میں طویل عرصے تک بطور مشرق وسطیٰ ماہر، غزہ کی صورت حال پر رپورٹنگ کرنے کے دوران ایک دن ایسا بھی آیا جو میرے ذہن میں ہمیشہ نقش ہو گیا۔

میں اپنی ٹیم کے سامنے کھڑی دوسری بار ایک پانچ سالہ بچی ہند رجب کی کہانی بیان کر رہی تھی، جو اپنی مردہ رشتہ داروں کے ساتھ ایک گاڑی میں پھنسی ہوئی تھی۔

میں مسلسل ہلال احمر کی اپ ڈیٹس دیکھ رہی تھی، جو اسے بچانے کی کوشش میں لگے ہوئے تھے، لیکن میں جس بی بی سی ڈپارٹمنٹ میں کام کر رہی تھی، اس نے اس دن اس کہانی کی کوریج سے انکار کر دیا۔ ہمارے عوامی نشریاتی ادارے نے اس کا نام لینے کا فیصلہ تب ہی کیا جب اسرائیلی فوج نے اسے (ہند رجب کو) قتل کر دیا۔ گاڑی پر 300 گولیاں برسائیں جب کہ وہ اندر ہی موجود تھی۔

اور جب بچی کی موت کی خبر شائع ہوئی تو سرخی میں واضح طور پر یہ تک نہیں لکھا تھا کہ یہ کس نے کیا۔ بی بی سی نے یہاں جان بوجھ کر نتیجہ اخذ کرنے (اسرائیل کا نام لینے) سے گریز کیا۔

بی بی سی ہند رجب کے ساتھ ناانصافی کا مرتکب ہوا اور اس نے فلسطینی بچوں کو ایک بار پھر اُس وقت نظر انداز کیا، جب اس نے بیرونی دباؤ کے باعث ’Gaza: How to Survive a Warzon‘ نامی دستاویزی فلم اس صرف اس وجہ سے ہٹا دی کیونکہ اس میں ایک 13 سالہ بچہ شامل تھا، جو حماس کے زیرانتظام علاقے کے نائب وزیر زراعت کا رشتہ دار تھا۔

بی بی سی کے پاس یہ اختیار تھا کہ وہ فلم کی بنیادی سچائی کو قائم رکھتے ہوئے کہ اسرائیل فلسطینی بچوں کو مار رہا ہے، فلم کے سیاق و سباق میں یہ ذکر کر کے کہ اس میں ایک بچہ حماس کے وزیر کا رشتہ دار ہے، اسے آن ایئر جانے دیتا۔

اس فیصلے کے خلاف میں اور گیری لائنیکر اور مریم مارگولیس سمیت ایک ہزار سے زائد دیگر افراد پر مشتمل عملے نے ایک کھلے خط پر دستخط کیے، جس میں اس اقدام کی مذمت کی گئی۔

کل ڈائریکٹر جنرل ٹم ڈیوی اور چیئرمین ڈاکٹر سمیر شاہ کو کلچر، میڈیا اینڈ سپورٹس کمیٹی کے سامنے پیش ہو کر بی بی سی کے کام کے بارے میں وضاحت دینی پڑی جہاں رکن پارلیمان ڈاکٹر روپا حق نے سوال کیا کہ بی بی سی نے کیوں دستاویزی فلم ہٹا کر ضرورت سے زیادہ ردعمل دیا۔

بی بی سی کا کہنا تھا کہ فلم بنانے کے عمل میں ’سنگین خامیاں‘ تھیں لیکن اس نے غزہ کی رپورٹنگ میں مجموعی ادارتی ناکامی کو تسلیم نہیں کیا۔ دورانِ سماعت، ٹم ڈیوی نے بی بی سی کی مشرق وسطیٰ کے حوالے سے مجموعی کوریج کے آزادانہ جائزے کی ضرورت پر اتفاق کیا، جو ایک ضروری قدم ہے۔

میں نے پانچ سال تک بی بی سی میں کام کیا، پہلے بطور محقق اور پھر ایک نیوز ریڈر اور صحافی کے طور پر۔ اس دوران میں نے کرونا وبا کے پھیلاؤ، روس کے یوکرین پر حملے اور انڈیا میں ہندو قوم پرستی کی کوریج کی، لیکن جب میں نے غزہ پر رپورٹنگ کی تو میں نے ادارتی عدم توازن کی ایک حیران کن سطح دیکھی۔

وہاں صحافی خوف کی وجہ سے جان بوجھ کر ثبوت پر مبنی کہانیوں کی پیروی نہیں کر رہے تھے۔ مہینوں تک میں نے بی بی سی کو ایک بڑی ادارتی غلطی دہراتے دیکھا، جیسے اس نے ماحولیاتی تبدیلی پر بحث میں کیا تھا، یعنی ایسی حقیقت پر بحث کرنا، جس کے ثبوت پہلے ہی واضح ہو چکے تھے۔ ہمیں ایک ایسا عوامی نشریاتی ادارہ چاہیے جو بغیر کسی خوف یا رعایت کے بروقت شواہد پر حرکت میں آئے۔ اس شعبے میں ادارتی جرات کلیدی ہے۔ میرا دعویٰ ہے کہ آج کے دور میں بھی سچائی کو مسخ کیا جاتا ہے۔

ایک صحافی کے لیے سچائی وہی ہوتی ہے جو معقولیت اور ٹھوس شواہد پر مبنی ہو۔ ایک ایسی دنیا میں جہاں دعوے مسلسل ایک دوسرے سے متصادم ہوں، صحافی کا کام انتہائی مشکل بن جاتا ہے، وہ تحقیقات کریں اور نتائج تک پہنچیں، نہ کہ مسلسل غیر ضروری مباحثے میں پڑ جائیں، چاہے اس سے کوئی ناراض ہو یا اس میں جتنی بھی محنت درکار ہو۔

اگر غیر جانبداری کا بنیادی طریقہ یہ ہو کہ ہمیشہ کہانی کے ’دونوں پہلوؤں‘ کو یکساں طور پر سچ مان لیا جائے، تو یہ طریقہ ناکام ہو چکا ہے۔

ایسا میڈیا جو نتائج تک پہنچنے سے انکار کرتا ہے، وہ محض اطلاعاتی جنگ کا آلہ بن جاتا ہے، جہاں بدنیت عناصر سوشل میڈیا پر بے بنیاد دعوے پھیلا کر ایک ’بعد از حقیقت‘ کو بھی دھندلا دیتے ہیں۔ صرف مضبوط، ثبوت پر مبنی نتائج ہی اس دھند کو ختم کر سکتے ہیں۔

ہر روز میری ایکس اور انسٹاگرام فیڈز پر وہ سب سے خوفناک تصاویر اور ویڈیوز نمودار ہوتیں جو میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھیں۔ میں آہستہ آہستہ ان کو دیکھتی، غزہ کی وہ کہانیاں درج کرتی جنہیں میں صبح کی میٹنگ میں پیش کرنا چاہتی تھی۔ یہ تصاویر دماغ پر کسی ’برانڈنگ آئرن‘ کی مانند تھیں۔ جلتی ہوئی اور ناقابلِ فراموش۔

پہلی بار جب میں نے ایک شخص کو اسرائیلی بلڈوزر کے نیچے کچلے جاتے دیکھا تو اس تصویر کو اتنا دھندلا (بلر) کر دیا گیا تھا کہ جیسے شاید میں نے محض کچھ سرخ پھول دیکھے ہوں۔ جیسے ہی تصویر صاف ہوئی میں نے اس شخص کے نارنجی اور سرخ رنگ کا گوشت زمین پر بکھرا ہوا دیکھا۔ مہینوں تک میں اس کا تصور کرتی اور میرے سینے میں شدید جکڑن محسوس ہوتی۔ میں نے ان مشکل اور تکلیف دہ حقیقتوں سے منہ موڑنے کے بجائے انہیں قبول کیا اور ان کا سامنا کیا، کیونکہ بطور صحافی یہ میری پیشہ ورانہ ذمہ داری تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ہر روز اتنے ناقابل تردید ثبوت دیکھنے کے بعد پھر بی بی سی پر اسرائیل کے اقدامات پر ’ففٹی ففٹی‘ مباحثے سننا ایک ایسی چیز تھی، جس نے میرے سچائی کے عزم اور بی بی سی میں بطور صحافی دی گئی میری ذمہ داری کے درمیان سب سے بڑا تضاد پیدا کر دیا تھا۔ ہم اس مرحلے سے آگے بڑھ چکے ہیں جہاں اسرائیل کے جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم بحث کے قابل ہوں۔

زمینی حقائق، امدادی تنظیموں اور قانونی اداروں سے ملنے والے شواہد اتنے زیادہ اور ٹھوس ہیں کہ ان کی بنیاد پر یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے، جو خبر کے انداز اور اس کی کوریج کو شکل دے سکے کہ اسرائیل نے وہاں کیا کیا ہے۔

2018 میں بی بی سی نے اپنی ادارتی رہنمائی میں بالآخر یہ واضح کیا کہ ’ماحولیاتی تبدیلی حقیقت ہے،‘ اس فیصلے کے بعد ماحولیاتی سائنس دانوں نے سکھ کا سانس لیا، جو برسوں سے بی بی سی کو اس کے غلط مباحثوں کے نقصانات کے بارے میں خبردار کر رہے تھے۔ اس کے بعد رپورٹنگ اس سچائی کی بنیاد پر کی جانے لگی۔

اب بی بی سی کب تسلیم کرے گا کہ ’اسرائیل واقعی بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کر رہا ہے‘ اور اپنی رپورٹنگ کو اس سچائی کے مطابق ڈھالے گا؟

 ایک پرانا مقولہ ہے کہ ’صحافی کا کام یہ رپورٹ کرنا نہیں کہ بارش کا امکان ہے یا نہیں بلکہ باہر جا کر عوام کو بتانا ہے کہ حقیقت میں بارش ہے یا نہیں‘ اور میں آپ کو بتا دوں کہ یہاں بارش نہیں طوفان آیا ہوا ہے۔

نوٹ: کرشمہ پٹیل بی بی سی کی سابق محقق، نیوز ریڈر اور صحافی ہیں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی میری کہانی