’1947 میں ہم بڑی مشکلوں سے اپنے آبائی علاقے میانوالی سے انڈیا پہنچ پائے تھے۔ اس وقت میری عمر 13 برس تھی اور کچھ عرصے بعد وہاں زندگی معمول پر آگئی لیکن میں اپنی جنم بھومی میانوالی کو کبھی نہیں بھلا سکا۔‘
یہ کہنا تھا انڈین دارالحکومت دہلی کے رہنے والے 90 سالہ روشن لال چیکر کا، جو 1992 کے بعد سے 19 مرتبہ پاکستانی صوبہ پنجاب کے جنوبی شہر میانوالی آ چکے ہیں۔
روشن لال چیکر، جو اس وقت میانوالی میں موجود ہیں، دہلی میں بھی میانوالی کا روایتی لباس پہنتے اور سر پر پگڑی لگاتے ہیں۔ ان کے گھر میں آج بھی میانوالی میں بولی جانے والی زبان بولی اور سمجھی جاتی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں روشن لال چیکر کا کہنا تھا کہ ’یہ پگڑی میرے دادا بھی باندھتے تھے۔ والد بھی اور میں نے بھی یہ روایت برقرار رکھی ہوئی ہے۔‘
انہوں نے بتایا: ’انڈیا میں لوگ شادی بیاہ پر پگڑی کا استعمال کرتے ہیں لیکن میرے لیے یہ لباس کا حصہ ہے اور میں اسے ہر وقت پہنتا ہوں۔‘
یہی نہیں بلکہ روشن لال نے دہلی میں میانوالی کی محبت میں ’میانوالی نگر‘ کے نام سے ایک رہائشی سوسائٹی بھی بنا رکھی ہے، جہاں میانوالی (پاکستان) میں گھر بار چھوڑ کر (انڈیا) جانے والے لوگ رہتے ہیں۔
اس رہائشی سوسائٹی میں ہر سال میاںوالی سے ہجرت کر کے انڈیا جانے والے لوگوں کی تقریب منعقد کی جاتی ہے، جہاں ماضی میں میانوالی سے تعلق رکھنے والے ہندو اکٹھے ہوتے ہیں۔
روشن لال چیکر ایسے دریا دل انسان ہیں کہ پاکستان سے آنے والے مہمان کی ہمیشہ وہی مہمان نوازی کرتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’میانوالی سے آنے والے تمام لوگ میرے ہی ایڈریس پر آتے ہیں۔ وہاں لوگ پانچ دن دس دن اور کئی بار ایک ایک ماہ تک میرے پاس قیام کرتے ہیں اور جو عرس پر آتے ہیں وہ چھ دن کے لیے آتے ہیں۔‘
روشن لال نے آل انڈیا میاںوالی ایسوسی ایشن بھی بنا رکھی ہے، جس کے سالانہ پروگراموں میں پورے ملک سے میاںوالی سے انڈیا منتقل ہونے والے لوگ شرکت کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے لوگوں اور میانوالی والوں نے انہیں ہمیشہ بہت پیار دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ دہلی اور اسلام آباد کو دونوں ملکوں کے درمیان سفری آسانیاں پیدا کی جائیں تاکہ عام شہریوں کے علاوہ کاروبار میں آسانی ہو۔
میانوالی میں روشن لال کے دوست باز گل نے انڈیپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ہم جب بھی میانوالی سے ہندوستان جاتے ہیں تو یہ شخص ہماری خدمت کے لیے اپنی آنکھیں بچھائے رکھتا ہے۔ ہمارے لیے چائے پانی روٹی اور رہائش کا انتظام بھی یہی کرتا ہے۔‘
روشن لال کے ایک دوسرے دوست مقبول احمد نے کہا کہ ’یہ شخص اتنا مخلص ہے کہ دہلی سے اجمیر شریف سینکڑوں کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے ہمیں ملنے آیا اور ہمارے لیے کھانے پینے کا سامان لایا۔‘
میانوالی سے تعلق رکھنے والے معروف پاکستانی گلوکار عطال اللہ خان عیسیٰ خیلوی بھی سے ملنے دہلی جا چکے ہیں۔