کل جماعتی حریت کانفرنس کے اتحاد میں واحد جماعت شیعہ رہنما مسرور عباس انصاری کی اتحاد المسلمین ابھی تک انڈیا کی حکومت کی پابندیوں کی زد سے باہر تھی، لیکن اس کی حالیہ مذہبی اور معاشرتی سرگرمیوں اور میر واعظ کشمیر مولوی عمر فاروق سے قربت کے بعد ملک دشمن سرگرمیوں کے الزام کے پیش نظر اس پارٹی پر پانچ سال کی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
میر واعظ عمر فاروق کی عوامی ایکشن کمیٹی بھی اس بار پابندی کی زد میں لائی گئی ہے جبکہ اس پارٹی کا محور کئی دہائیوں سے مذہبی امور تک محدود رہا ہے۔
مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کے مطابق یہ دونوں جماعتیں امن عامہ کو درہم برہم کرنے کی کارروائیوں میں مصروف ہیں اور دہشت گردی اور ملک دشمن سرگرمیوں کی حمایت کرتی ہیں۔
عوامی ایکشن کمیٹی نے پابندی کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’یہ کارروائی ہراسانی اور غیر قانونی اختیار کرنے کی سرکار کی پالیسیوں کا ایک تسلسل ہے جو اس نے جموں و کشمیر کے عوام کے خلاف 2019 کو اندرونی خودمختاری ختم کرنے کے بعد شروع کی ہیں۔ کمیٹی نے کہا کہ ’سچ کو دبایا جا سکتا ہے، خاموش نہیں کیا جا سکتا۔‘
عوامی ایکشن کمیٹی کے حالیہ بیانات میں اپیل کی گئی تھی کہ جمہوری طریقے سے عوامی احساسات اور جذبات کی نمائندگی کرتے ہوئے وہ مسئلہ کشمیر کا پُرامن حل چاہتی ہے جس میں انڈیا اور پاکستان کو مذاکرات کرنے چاہیے۔
واضح رہے کہ میر واعظ کل جماعتی حریت کانفرنس کے سربراہ بھی ہیں جو مرحوم سید علی شاہ گیلانی کی حریت کانفرنس سے علیحدگی کے بعد اپنی اعتدال پسندی کے باعث آزادی پسند حلقوں میں کافی متنازع رہے ہیں اور انہیں پاکستان سے زیادہ انڈیا کے موقف کے قریب تصور کیا جاتا رہا جبکہ گیلانی کی حریت کانفرنس الحاق پاکستان کی کھل کر وکالت کرتی رہی ہے۔
اگرچہ میر واعظ خاندان کہتا رہا ہے کہ عوامی ایکشن کمیٹی کو سیاست سے دور کا واسطہ نہیں اور اس کی سرگرمیاں خالص مذہبی اور سماجی امور پر مرکوز رہی ہیں، مگر برصغیر کی تقسیم کے بعد میر واعظ خاندان اور شیخ محمد عبداللہ کی نیشنل کانفرنس کے بیچ سیاسی شدید ٹکراؤ رہا ہے جو کشمیر میں ’شیر بکرا سیاست‘ سے جانا جاتا ہے۔
یہ وہ زمانہ تھا جب اندرون سری نگر ڈاؤن ٹاؤن میں بکرا والوں کا اتنا اثر رسوخ تھا کہ انڈیا نواز شیخ عبداللہ کی نیشنل کانفرنس یعنی شیر کا کوئی کارکن اس علاقے سے گزرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا، جبکہ سول لائنز علاقوں میں شیر پارٹی والوں کا دبدبہ تھا اور پاکستان نواز بکرا والوں کے لیے ممنوعہ خطہ بھی۔
عوامی ایکشن کمیٹی اس وقت سے سرکاری عتاب کا شکار رہی ہے جب 1963 میں حضرت بل درگاہ میں موئے مقدس کے لاپتہ ہونے کے وقت پارٹی کی بنیاد ڈالی گئی تھی اور مذہبی امور کی نوک پلک سنوارنے میں اہم کردار نبھاتی رہی۔
پارٹی کا سیاسی کردار اس وقت مزید نمایاں ہوگیا جب 1977 میں سابق وزیراعظم مرار جی ڈیسائی کو میر واعظ کے گھر پر مدعو کیا گیا تھا۔
کشمیری سیاست میں اس واقعے کو ایک زلزلے سے تعبیر کیا گیا جب پاکستان نواز ہجوم نے انڈین وزیراعظم کے والہانہ استقبال کے دوران انہیں ’پاکستان کا غازی‘ ترانہ گا کر ایک کہرام مچا دیا تھا۔ انڈیا نواز نیشنل کانفرنس نے اسے اپنی سیاست میں مداخلت سے تعبیر کیا جو اپنے انڈیا نواز ہونے کے اعزاز میں کسی اور کی شراکت داری نہیں چاہتی تھی۔
حالیہ دنوں میں میر واعظ عمر فاروق نے انڈین مسلم رہنماؤں سے کئی ملاقاتیں شروع کیں اور مسلم وقف بورڈ ترامیم پر اپنا موقف دینے کے لیے پارلیمانی کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے جہاں انہیں بات کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔
چند ہفتے قبل ہی جموں و کشمیر کے مسلم علما نے میر واعظ سے ملاقات کرکے مذہبی امور میں بعض جماعتوں اور فرقوں کی بے جا مداخلت پر آواز اٹھائی اور عوام کو ایسے عناصر کے خلاف متحد رہنے کی تلقین کی جو فرقوں میں دراڑ ڈال کر سیاسی روٹیاں سینکنے کے عادی بن چکے ہیں۔ اتحاد المسلمین سمیت کئی جماعتوں نے فرقہ پرستی اور مسلم دشمن پالیسیوں کے خلاف کسی بھی کوشش کو ناکام بنانے کا عہد کیا۔
سرکار نے اس سے قبل جماعت اسلامی پر پابندی عائد کرکے ان کے سکولوں کو مقفل کردیا جس کے پیش نظر چند رہنماؤں نے بحیثیت آزاد امیدوار اسمبلی انتخابات میں حصہ لے کر اپنے بدلتے موقف کی ترجمانی بھی کرنی چاہی تھی مگر انہیں انتخابی شکست سے دوچار ہونا پڑا۔
اس کے بعد جماعت اسلامی کے رہنماؤں نے نئی سیاسی جماعت جموں و کشمیر جسٹس اور ڈیولپمنٹ پارٹی کا اعلان کیا اور مینسٹریم دھارے میں واپسی کے عمل کی دوبارہ شروعات کی۔ پارٹی کے رہنما سیار احمد نے کہا کہ وہ مستقبل میں بلدیات سے لے کر اسمبلی اور پارلیمانی انتخابات میں حصہ لیتے رہیں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
حریت کانفرنس کے دونوں دھڑوں کو اب مکمل طور پر ناپید کردیا گیا ہے اور وادی میں اس کے بیشتر رہنما جیلوں میں قید ہیں یا روپوش ہوگئے ہیں۔ وادی میں مکمل آزادی پسندوں یا پاکستان نوازوں کا نام و نشان بھی مٹا دیا گیا ہے اور اب مذہبی جماعتوں پر پابندی کا سلسلہ جاری ہے۔
سری نگر میں حال ہی میں کتاب فروشوں پر پولیس کے چھاپوں کے دوران جماعت اسلامی اور تاریخ کشمیر سے وابستہ بیشتر مواد کو ضبط کرلیا گیا ہے جبکہ قرآن شریف تقسیم کرنے کی ایک کارروائی کو روکا گیا جس پر عوامی تشویش کو نظر انداز کردیا گیا۔
عوامی ایکشن کمیٹی اور اتحاد المسلمین پر پابندی کرنے کا مقصد اصل میں اس تاریخ اور اس کی علامات کو ختم کرنا ہے جنہیں تحریک آزادی یا مذہب سے کسی بھی طرح کا تعلق رہا ہے۔
حکومت خطے میں نئی سیاست، نئے کردار اور نیا نعرہ متعارف کرانے کی خواہش مند ہے جس میں صرف انڈیا، اس کی سالمیت اور وفاداری کا عہد و پیمان ہو اور جس میں میر واعظ عمر فاروق اور دوسرے آزادی پسندوں کے رول کی چاہت ہے اگر وہ اس کے لیے تیار ہوتے ہیں۔
ابھی تک ایسا کوئی عندیہ نہیں ملا مگر مختلف ذرائع سے اشارے مل رہے ہیں کہ سرکار پس پردہ ماضی کو دفن کرکے ایک بڑے سیاسی منصوبے پر کام کر رہی ہے جس میں مین سٹریم کے بغیر نئی اور آزادی پسند قیادت کا نیا تجربہ لیبارٹری میں تیار ہو رہا ہے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔