وہ بلوچ روایات جنہیں باغیوں نے پامال کر دیا

بلوچستان میں گذشتہ سال دہشت گردی کے واقعات میں جو اضافہ دیکھنے کو ملا ہے وہ سال 2023 کے مقابلے میں 84 فیصد زیادہ ہے۔ حالیہ ٹرین واقعہ اندوہناک ہے کیوں کہ تاریخی طور پر بلوچوں کو مہمان نواز کہا جاتا تھا۔

21 اپریل 2017 کی اس تصویر میں کوئٹہ میں بلوچ جنگجو اپنے ہتھیار ڈالتے ہوئے (اے ایف پی/ بنارس خان)

وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی بدھ کو جب صوبائی اسمبلی سے خطاب کر رہے تھے تو انہوں نے ایک جملہ کہا کہ تاریخ میں لکھا جائے گا کہ بلوچوں نے نہتے لوگوں کا قتلِ عام کیا۔

اس جملے کے پیچھے سینکڑوں ہزاروں سال کی روایات کھڑی ہیں۔ قبائلی سماج میں روایات کی پاسداری کو اپنی جان سے بھی مقدم جانا جاتا ہے لیکن بلوچستان کی حالیہ یورش میں ان روایات کو بھی پامال کر کے رکھ دیا گیا ہے۔

بلوچستان میں شناختی کارڈ دیکھ کر غیر بلوچوں کو بے دردی سے قتل کیے جانے کے واقعات اب معمول بن چکے ہیں۔

پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کی ایک رپورٹ کے مطابق بلوچ قوم پرست باغیوں نے عام لوگوں اور سکیورٹی فورسز پر گذشتہ سال 202 حملے کیے جن کے نتیجے میں 322 لوگ اپنی جانوں سے گئے جن میں 62 لوگ ایسے تھے جنہیں صرف اس لیے قتل کیا گیا کہ وہ بلوچ نہیں تھے۔`

بلوچستان میں گذشتہ سال شدت پسندی کے واقعات میں جو اضافہ دیکھنے کو ملا ہے وہ سال 2023 کے مقابلے میں 84 فیصد زیادہ ہے۔ حالیہ ٹرین واقعہ اندوہناک ہے کیوں کہ تاریخی طور پر بلوچوں کو مہمان نواز کہا جاتا تھا۔ اگر دشمن بھی ان کے ہاں آ جاتا تو اسے بھی پناہ ملتی، جس کی تاریخ میں کئی مثالیں ملتی ہیں۔

جب ہمایوں کو امان دی گئی

ہمایوں 1543 میں شیر شاہ سوری کے ہاتھوں شکست کھا کر ایران کی طرف بھاگ رہا تھا۔ جب وہ بلوچستان سے گزرا تو یہاں ایک مگسی سردار کی حکومت تھی جسے ہمایوں کے بھائی کامران مرزا والیِ قندھار نے ہدایت دے رکھی تھی کہ اگر ہمایوں ایران جاتے ہوئے اس کے علاقے سے گزرے تو اسے گرفتار کر کے اس کے پاس قندھار لایا جائے جس کے بدلے میں بہت زیادہ انعام و اکرام کی پیش کش بھی کی گئی تھی۔

یہ واقعہ ’ہمایوں نامہ‘ میں لکھا ہوا ہے جسے میر شیر باز خان مزاری نے اپنی کتاب A Journey to Disillusionment میں بھی رقم کیا ہے جسے آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے 1999 میں شائع کیا تھا۔

ہمایوں کے قافلے نے رات کو ایک بلوچ گاؤں کے پاس کیمپ لگایا۔ صبح جب وہ جانے لگے تو بلوچوں نے سب کو اپنا قیدی بنا لیا اور کہا کہ جب تک سردار واپس نہیں آتے انہیں جانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ ہمایوں کی بہن گلبدن بیگم بلوچوں کو دیکھ کر بہت خوفزدہ ہو گئی اور اس نے لکھا کہ اپنے حلیے سے بلوچ بہت وحشی اور خونخوار لگ رہے تھے جن کی زبان بدروحوں کی طرح محسوس ہو رہی تھی۔

سارا دن انتظار کے بعد شام کو بلوچ سردار واپس آئے تو انہیں بتایا گیا کہ ہمایوں کا قافلہ یرغمال بنا لیا گیا ہے۔ سردار سیدھا ہمایوں کے پاس گیا اور اسے والی قندھار کا حکم نامہ دکھایا اور ساتھ یہ بھی بتایا کہ اس کے بدلے میں اسے کتنے بڑے انعام و اکرام کا لالچ دیا گیا ہے، اس لیے وہ انتظار میں تھے کہ آپ کب یہاں سے گزریں اور آپ کو گرفتار کر کے کامران مرزا کو پیش کیا جائے۔ 

لیکن چونکہ آپ کا کیمپ میرے گاؤں میں لگا ہوا ہے اس لیے بلوچ روایات کے تحت اب آپ کے خلاف کارروائی نہیں ہو سکتی کیونکہ اب آپ ہماری پناہ میں آ چکے ہیں۔

یہی نہیں بلکہ بلوچ سردار نے ہمایوں کو یقین دلایا کہ اب کوئی آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا، میں اور میرا قبیلہ ہر قیمت پر آپ کی حفاظت کریں گے۔

ہمایوں جب ایرانی افواج کی مدد سے تختِ دہلی حاصل کرنے کے لیے دوبارہ بلوچستان سے گزرا تو بلوچ لشکر اس کے ہم رکاب ہو گیا جس نے ہمایوں کو دہلی فتح کرنے میں بھرپور مدد کی۔ کہا جاتا ہے کہ جب بلوچ لشکر دہلی سے واپس آ رہا تھا تو ساہیوال میں ’ست گھڑہ‘ کے مقام پر بلوچ سردار میر چاکر رند فوت ہو گیا جسے وہیں دفن کر دیا گیا۔

لیفٹیننٹ کرنل (ر) سکندر خان بلوچ اپنی کتاب تاریخ کے زخم میں لکھتے ہیں کہ ’ہندوستان کے حوالے سے انگریزوں کا نفسیاتی مطالعہ بڑا دلچسپ تھا۔ جس کے مطابق کچھ علاقوں کے لوگوں کو صرف ڈنڈے کے زور پر مطیع کیا جا سکتا تھا، کچھ کو مال و دولت کے لالچ میں، کچھ کو عہدوں اور ملازمتوں کے وعدوں پر اور کچھ کو سرداری کے خطاب سے ہمنوا بنایا جا سکتا تھا، لیکن بلوچوں کے متعلق وہ کہتے ہیں کہ بلوچ صرف عزت و احترام سے ہی خریدا جا سکتا ہے۔‘

بلوچوں کے متعلق انگریزی مقولہ ہے کہ ’Respect a Bloch and kill him, he will not say no‘ یہی وہ نقطہ تھا جس پر رابرٹ سنڈیمن نے بغیر گولی چلائے بلوچستان فتح کر لیا تھا۔

شیر باز مزاری نے جب ہندو لڑکیوں کو واگزار کرایا

تقسیم کے وقت ہندو تاجروں کے قافلے جب روجھان سے ڈیرہ غازی خان کی طرف روانہ ہوئے تو راستے میں کچھ بلوچ قبائل نے ان پر حملے کیے اور ہندوؤں کی سات نوجوان لڑکیوں کو اغوا کر لیا۔ شیر باز خان مزاری کو جب اس کا پتہ چلا تو انہوں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ اغواکاروں کا پیچھا کیا اور لڑکیوں کو چھڑوا کر ان کے والدین کے حوالے کر دیا اور ہندوؤں کو بحفاظت روانہ کیا۔ چند ہفتے بعد نواب مزاری کو ایک اور ہندو لڑکی کنویں پر پانی بھرتی ملی، جس نے بتایا کہ اسے اغوا کیا گیا ہے۔ نواب شیر باز مزاری نے اسے بھی واگزار کرایا۔

اس کے کچھ عرصہ بعد شیر باز مزاری اپنی بیگم کے ہمراہ انڈیا گئے تو ان کا قیام پاکستانی سفارتخانے میں تھا۔ جب ڈیرہ غازی خان کے ہندوؤں کو معلوم ہوا کہ شیر باز مزاری دہلی آئے ہوئے ہیں تو وہ سردار صاحب اور ان کی بیگم کو ایک جلوس کی صورت میں لینے آئے اور اپنے قصبے میں لے جا کر ان کی خوب آؤ بھگت کی۔

انہیں پھولوں سے لاد دیا۔ ان میں وہ لوگ بھی شامل تھے جن کی بیٹیاں نواب شیر باز مزاری نے واپس کروائی تھیں۔

قبائلی روایات کا جنازہ کیوں نکلا؟

بلوچستان کی موجودہ یورش جو نواب اکبر بگٹی کی موت سے شروع ہوئی اس کا سبب ڈاکٹر شازیہ خالد سے سوئی میں مبینہ زیادتی کا واقعہ بنا۔ ڈاکٹر شازیہ خالد جو سوئی میں پی پی ایل کے ہسپتال میں تعینات تھیں، اسے 2005 میں مبینہ طور پر زیادتی کا نشانہ بنایا گیا جس کا الزام فوج کے ایک کپتان پر لگا۔

نواب اکبر بگٹی ڈاکٹر شازیہ کے ساتھ کھڑے ہو گئے اور انہوں نے دوٹوک مؤقف اپنایا کہ سوئی کی زمین پر کسی بیٹی کے ساتھ ظلم نہیں ہو سکتا۔ بگٹی قبائل اور سیکورٹی فورسز کے درمیان جھڑپیں شروع ہو گئیں جو بالآخر 26 اگست 2006 کو نواب اکبر بگٹی کی ہلاکت پر منتج ہوئیں۔

اس کے بعد سے بلوچ قوم پرستوں نے حکومتِ پاکستان کے خلاف یورش کا آغاز کر رکھا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ نواب اکبر بگٹی جنہوں نے مبینہ طور پر ایک غیر بلوچ لڑکی کو انصاف دلانے کے لیے اپنی جان قربان کی تھی، آج انہی بگٹی صاحب کے نام پر شناختی کارڈ دیکھ کر غیر بلوچوں کو گولی سے اڑایا جاتا ہے اور یہ سب کچھ اسی بلوچستان کی سرزمین پر ہو رہا ہے جو قبائلی روایات کی پاسداری کو اپنی جان سے بھی زیادہ مقدم جانتی ہے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان