اس ہفتے ارادہ تھا کہ کالم جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ممکنہ اتحاد اور عید کے بعد اپوزیشن کی مشترکہ تحریک پر تحریر کیا جائے لیکن بلوچستان میں ہونے والے بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے دہشت گرد حملے کے بعد کی صورت حال کا تقاضا یہ ہے کہ اس ایشو پر نہ صرف کھل کر بات کی جائے بلکہ دو صوبوں میں لگی دہشت گردی کی آگ بجھانے کے لیے طویل مدت حکمت عملی پر بات کی جائے۔
گذشتہ ہفتے مولانا فضل الرحمان سے دہشت گردی کی نئی لہر اور تحریک انصاف سے ممکنہ اتحاد کے موضوع پر دو مرتبہ تفصیلی ملاقات ہوئی، جس کی روداد اگلے کالم میں صحیح، لیکن اتنا ضرور تحریر کرنا چاہوں گا کہ مولانا اس وقت سیاست سے زیادہ بڑھتی ہوئی دہشت گردی پر پریشان ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کی آواز میں کرب اور گلہ موجود ہے کہ ارباب اختیار کو احساس ہی نہیں کہ معاملات کتنے خراب ہو چکے ہیں۔ مولانا حامد الحق کی تعزیت کے موقعے پر کی گئی تقریر سے اس وقت مولانا اور ان کی جماعت کی سوچ بڑی حد تک واضح ہو گئی تھی۔
بات کریں بلوچستان کی، ویسے تو گذشتہ چار دہائیوں میں پاکستان میں دہشت گردی کے بڑے بڑے واقعات ہوئے لیکن سانحہ آرمی پبلک سکول کے بعد جعفر ایکسپریس پر حملہ کر کے 400 سے زیادہ مسافروں کو یرغمال بنانا ایسے واقعات ہیں، جسے ریاست اور عام اور نہتے پاکستانیوں پر براہ راست حملہ قرار دیا جا سکتا ہے۔
اب حالات کا تقاضا یہ ہے کہ جس طرح اے پی ایس حملے کے بعد پوری قوم نے اکٹھے ہو کر حالات کا مقابلہ کیا، نیشنل ایکشن پلان بنا، درجنوں آپریشن ہوئے، جس کے نتیجے میں چند سال نسبتاً پُر امن گزرے بلکہ اسی طرز پر ایک جامع اور مضبوط پالیسی کے ساتھ سیاسی وابستگیوں سے بالاتر اور یکجا ہو کر ان دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کارروائی کی جائے، جن کے نشانے پر نہ صرف سکیورٹی فورسز بلکہ نہتے اور معصوم عوام ہیں۔
آج پارلیمان کی نیشنل سکیورٹی کمیٹی کا اہم اجلاس ہونا ہے جس میں اہم فیصلوں کی توقع کی جا رہی ہے، لیکن کچھ گزارشات ہیں جنہیں ذہن نشین کرنا ضروری ہے۔ آرمی پبلک سکول کے سانحے کے بعد ایک جامع اور مربوط نیشنل ایکشن پلان بنا، جس پر عمل در آمد بھی ہوا لیکن پھر وہی ہوا، جو ہوتا آیا کہ عمل درآمد کے لیے جو تسلسل چاہیے وہ ٹوٹ گیا۔
اس کے بعد 2019 میں ایک دفعہ پھر نیشنل ایکشن پلان کی دستاویز کو اپ ڈیٹ کر کے اس پر عمل درآمد کے اعلانات ہوئے لیکن ہم پھر کچھ عرصے بعد ملکی سیاست میں گم ہو کر نیشنل ایکشن پلان کو بھول گئے اور ایسے بھولے کہ کچھ عرصے بعد جب افغانستان میں طالبان کی حکومت آئی تو اسے ہم نے غلامی کی زنجیریں توڑنے کے مترادف قرار دیا۔
نہ صرف یہ بلکہ کابل میں ہماری انٹیلی جنس ایجنسی کے سربراہ جنرل (ر) فیض حمید نے چائے نوش کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ’آل ول بی ویل۔‘ فاسٹ فارورڈ کریں تو اس کے بعد ’شدت پسندوں‘ سے بات چیت کر کے انہیں ہزاروں کی تعداد میں پاکستان میں بسایا گیا۔
اب آج جو پاکستان میں ہو رہا ہے تو ’آل ول بی ویل‘ کا وائرل کمنٹ کا خلاصہ یہی بنتا ہے کہ چائے کی پیالی میں طوفان لانا۔ آپ 2014 سے مسلسل سات، آٹھ سال ’شدت پسندوں‘ کے خلاف نیشنل ایکشن پلان کے تحت لڑتے رہے، شہدا کے جنازے اٹھاتے رہے، لیکن آخر میں آپ نے فیصلہ وہ کیا جس کی سمجھ آج تک کسی کو نہ آئی۔
جن کے خلاف آپ لڑتے رہے، ان ہی ’شدت پسندوں‘ کو آپ نے ایک ہی فیصلے سے اپنا دوست بنا لیا۔ کنفیوژن کی اسی پالیسی نے ہمیں گلوبل ٹیررازم انڈیکس میں دوسرے نمبر پر لا کھڑا کیا ہے۔ اب جبکہ ریاست ’شدت پسندوں‘ سے نمٹنے کا فیصلہ کر چکی ہے اور اس پر اتفاق رائے موجود ہے، ہمیں یہ فیصلہ بھی کر لینا چاہیے کہ یہ ہمارا اٹل فیصلہ ہے۔
اس میں دو رائے نہیں کہ بلوچستان میں دہشت گرد تنظیموں کے خلاف مربوط اور ٹارگیٹڈ آپریشن وقت کی ضرورت ہے، لیکن اس حکمت عملی کو دو حصوں میں تقسیم کر کے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ ایک آپریشنل حکمت عملی اور دوسری سیاسی حکمت عملی کے ذریعے اتفاق رائے۔
وزیراعظم شہباز شریف آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا اعلان کر چکے ہیں اور توقع یہی ہے کہ آج نیشنل سکیورٹی کمیٹی کے اجلاس میں اس کا فیصلہ بھی کر دیا جائے گا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ بلوچستان کے معاملے پر ایک اعلیٰ سطح کی کمیٹی بنا کر ملک کی تمام سیاسی جماعتوں بشمول بلوچ قوم پرست جماعتوں کو آن بورڈ لیا جائے۔
اور کیوں نہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کو اس کمیٹی کا سربراہ بنایا جائے، جس میں بلاول بھٹو بھی شامل ہوں، جن کی پارٹی اس وقت بلوچستان میں برسرِاقتدار ہے۔ میاں صاحب کے ڈاکٹر عبدالمالک سمیت بلوچستان کی سیاسی قیادت کے ساتھ احترام کا رشتہ ہے اور اس میں کوئی دو رائے نہیں۔
ملک کے تین دفعہ وزیراعظم رہنے والے میاں نواز شریف بلوچستان کے معاملے پر اتفاق رائے پیدا کرنے میں کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں، بشرطیکہ وہ یہ کردار ادا کرنے پر آمادہ ہو جائیں اور انہیں ہونا چاہیے۔
اب بات کریں آپریشن کے لیے ایک جامع اور مربوط حکمت عملی کی تو شاید ہی کوئی محب وطن پاکستانی ہو، جو دہشت گردوں کے خلاف ایک گرینڈ آپریشن کی مخالفت کرے، لیکن بلوچستان میں کسی قسم کے آپریشن کے آغاز سے پہلے دو ممالک افغانستان اور ایران کے کردار کو ضرور مدنظر رکھ کر اس بارے میں حکمت عملی بنانی ہو گی۔
بی ایل اے کی لیڈر شپ نہ صرف افغان بلکہ ایران کی سر زمین بھی پاکستان کے خلاف استعمال کر رہی ہے۔ بلوچستان کے معاملے پر پاکستان ایران تعلقات گذشتہ کچھ عرصے سے مثالی نہیں رہے۔ ایسا کوئی بھی آپریشن شروع کرنے سے پہلے ان دونوں ممالک سے دو ٹوک اور واضح بات کرنی ہو گی کہ اب پاکستان اپنی سالمیت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔
سیاسی اتفاق رائے کے ساتھ ایک ایسا گرینڈ آپریشن، جس میں ایران اور افغانستان کی سرزمین استعمال نہ ہو سکے، تبھی وہ نتائج دے سکے گا، جس کی اس وقت پاکستان کو ضرورت ہے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔