گوجرانوالہ کے 100 سال پرانے اکھاڑے میں رمضان کے مہینے میں کافی رونق دکھائی دیتی ہے، جہاں افطار کے بعد سحری تک پہلوان کسرت کرتے نظر آتے ہیں۔
اس اکھاڑے کو چلانے والے شاہد بابر پہلوان کو رستم پاک و ہند کا اعزاز بھی مل چکا ہے، جن کے مطابق ان کے خاندان کی ساتویں پشت یہ اکھاڑا چلا رہی ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں شاہد بابر نے بتایا کہ گوجرانوالہ کے پہلوان افطار سے کچھ دیر پہلے یہاں پر جمع ہوتے ہیں، تھوڑی بہت کسرت کرتے ہیں اور پھر مل کر روزہ افطار کرتے ہیں۔
بعدازاں نماز کی ادائیگی کے بعد تھوڑی دیر آرام کرکے اصلی ٹریننگ کا مرحلہ شروع ہو جاتا ہے۔
رات گئے تک پہلوان اکھاڑے میں زور آزمائی کرتے نظر آتے ہیں، یہ سلسلہ سحری کے وقت تک جاری رہتا ہے۔ پھر سحری کر کے سب اپنے گھروں کو چل نکلتے ہیں۔ اس اکھاڑے میں کسرت کرنے والے پہلوانوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ عام دنوں میں تو وہ دن میں تین وقت پریکٹس کرتے ہیں لیکن رمضان میں اسے دو وقت پر لے آتے ہیں مگر پریکٹس کافی مشکل ہوتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
رمضان میں اپنی خوراک کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ افطار کے وقت وہ بہت کم کھاتے ہیں کیونکہ اس کے بعد پریکٹس کرنی ہوتی ہے لیکن سحری میں بہت زیادہ کھاتے ہیں۔
’سحری کے وقت ہم نلیاں، بکرے کے پائے اور دیسی گھی سے تیار کردہ ہانڈیاں کھاتے ہیں اور ساتھ ہی بادام سے تیار کردہ سردائی بھی پہلوانوں کی خاص خوراک ہے، جو پورا دن انہیں توانا رہنے میں مدد فراہم کرتی ہے۔‘
رانا عظمت نامی پہلوان نے بتایا کہ ’اگر میں آج سے 50 سال پہلے کی بات کروں تو ہم رمضان میں رات کو دو بجے کے قریب اٹھ جایا کرتے تھے، روٹین میں ہم مشروبات پیتے تھے، روزانہ کی بنیاد پر کئی کئی کلو دودھ پی جایا کرتے تھے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ روزانہ کی بنیاد پر چار سے پانچ کلو گوشت ایک پہلوان کھاتا ہے جو اسے دن میں مختلف حصوں میں مکمل کرنا ہوتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ’ہم پہلوانوں کی خاص ڈش تو سردائی ہی ہوتی ہے جو کہ بادام اور خشک میوہ جات ڈال کر خاص طریقے سے تیار کیا جاتا ہے۔ اگر ہم زیادہ کھاتے ہیں تو پھر ہم ٹریننگ بھی زیادہ کرتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’میں آنے والے شاگردوں کو برگر اور پیزا کھانے سے منع کرتا ہوں اور کہتا ہوں کہ دیسی کھانے کھائیں، برگر اور پیزا صحت کے لیے نقصان دہ ہیں۔‘