گوجرانوالہ کا نام آتے ہی ذہن میں پہلوانی، داؤ اور زبان چڑے بٹیروں کے ذائقے یاد کرنے لگتی ہے مگر بات اب چڑے بٹیروں تک محدود نہیں رہی کیونکہ اب جس پکوان کا نام زبان زد عام ہے وہ ’ہریسہ‘ ہے۔
خواجہ عفیف گذشتہ 30 سال سے گوجرانوالہ کی قدیم فوڈ سٹریٹ گورونانک پورہ میں ’امرتسری ہریسہ‘ کے نام سے دکان چلا رہے ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’ہریسے کے اجزائے ترکیبی خالصتاً ہندوستان کے شہر امرتسر سے درآمد کیے گئے ہیں۔‘
ان کے مطابق ان سے پہلے ان کے والد یہ دکان چلاتے تھے اور اُنہوں نے اپنے بڑوں سے یہ ہریسہ بنانے کا گُر لیا تھا جو اب سینہ بہ سینہ اگلی نسل میں منتقل ہو رہا ہے۔
ہریسے کے لوازمات کی بات کرتے ہوئے خواجہ عفیف کا کہنا تھا کہ ’یہ بکرے کے گوشت، دالوں اور گندم سے بنتا ہے اور اس پر حسب ذوق دیسی گھی یا زیتون کے تیل کا تڑکا لگایا جاتا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’پہلے پہل تو لوگ اس پکوان کی طرف اتنا راغب نہیں تھے مگر اب پچھلے کچھ عرصے سے اور خصوصاً رمضان المبارک کے سحر و افطار میں لوگ اسے بڑے شوق سے کھاتے ہیں۔‘
گوجرانوالہ میں لوگ ہریسے کے ساتھ لسی بھی پیتے ہیں۔ ایک شہری راشد محمود جو خود بھی لسی پی رہے تھے انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’لسی اور ہریسے کا کمبی نیشن تھوڑا عجیب تو ہے مگر ہم اس سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا کہنا تھا کہ ’سحری، ہریسہ اور لسی ایک ایسی تکون بن چکی ہے کہ ان میں سے کوئی ایک چیز موجود نہ ہو تو رمضان ادھورا لگتا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ایسا بھی نہیں ہے کہ گوجرانوالہ کے سارے لوگ پہلوان ہی ہیں تو وہ اتنا کھاتے پیتے ہیں بلکہ آپ کو اس فوڈ سٹریٹ میں بچے اور کئی نوجوان بھی نظر آئیں گے جو ظاہری طور پر معقول سی صحت کے حامل ہوں گے مگر لسی کے مگ غٹا غٹا چڑھا رہے ہوں گے۔‘
ایک نوجوان فہد زمان جو طالب علم ہیں سے انڈپینڈنٹ اردو نے جب بات کرنا چاہی تو ان کا کہنا تھا کہ ’میرے جیسا بندہ باتوں باتوں میں ہریسے کی دو پلیٹیں آرام سے کھا جائے گا اور پتہ بھی نہیں چلے گا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس فوڈ سٹریٹ میں اور بھی کئی پکوان تیار کیے جا رہے ہیں مگر آپ کو رش ہریسے والی دکان پر ہی ملے گا جو اس چیز کی دلیل ہے کہ ہریسے نے چڑے اور بٹیروں کی جگہ لے لی ہے۔‘