صحافیوں کے دورہ اسرائیل کی تحقیقات کریں گے، تل ابیب کو کسی صورت تسلیم  نہیں کریں گے: پاکستان

ترجمان دفتر خارجہ شفقت علی خان نے انڈپینڈنٹ اردو کے سوال کے جواب میں کہا کہ وزارت خارجہ اور حکومت پاکستان کو اس دورے کے بارے میں کوئی پیشگی علم نہیں تھا اور نہ ہی اس کی تفصیلات موجود ہیں۔

غیرسرکاری تنظیم شراکا کے وفد کا 13 مئی 2022 میں ایک گروپ فوٹو، جس میں پاکستانی شہریوں کو اسرائیل میں موجود دیکھا جا سکتا ہے (شراکا)

پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے جمعرات کو ہفتہ وار بریفنگ میں اسرائیل کا دورہ کرنے والے پاکستانی صحافیوں اور محققین کے وفد کے بارے میں لا علمی کا اظہار کیا ہے۔

ترجمان دفتر خارجہ شفقت علی خان نے انڈپینڈنٹ اردو کے سوال کے جواب میں کہا کہ وزارت خارجہ اور حکومت پاکستان کو اس دورے کے بارے میں کوئی پیشگی علم نہیں تھا اور نہ ہی اس کی تفصیلات موجود ہیں۔

ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ ’ہمارا اس دورے سے کوئی تعلق نہیں۔ ہمیں اس دورے کے بارے میں میڈیا رپورٹس کے ذریعے ہی پتہ چلا، جو میرے خیال میں گذشتہ روز شائع ہوئی تھیں۔ ہمارے پاس معلومات کا یہی واحد ذریعہ ہیں۔‘

ترجمان نے کہا کہ  ’اسرائیل کو تسلیم کرنے یا فلسطین یا اسرائیل کے سوال یا فلسطین یا عرب اسرائیل مسائل کے سوال پر پاکستان کے موقف میں تبدیلی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔‘

پاکستانی صحافیوں کے وفد کے مبینہ دورہ اسرائیل سے متعلق ایک سوال کے جواب میں ترجمان نے کہا کہ اس دورے کا وزارت خارجہ یا حکومت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ’ہم معلومات اکٹھی کر رہے ہیں اور جب ہمارے پاس واضح تصویر ہو گی تو ہم اس پر تبصرہ کر سکیں گے۔

واضح رہے اسرائیلی میڈیا رپورٹس کے مطابق گذشتہ ہفتے 10 افراد پر مشتمل پاکستانیوں کے ایک وفد کو تل ابیب اور مقبوضہ بیت المقدس کا دورہ کروایا گیا۔ اسرائیل کا دورہ کرنے والے اس وفد میں صحافیوں اور محقیقین کے علاوہ دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد بھی شامل تھے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق اسرائیل جانے والے وفد میں صحافی سبین آغا، اسلام آباد ٹیلی گراف سے وابستہ صحافی کسور کلاسرا اور قیصر عباس، صحافی شبیر خان، سندھ سے تعلق رکھنے والے پیر مدثر شاہ بھی شامل تھے۔

انڈپینڈنٹ اردو نے صحافی سبین آغا اور کسور کلاسرا سے اس دورے سے متعلق جاننے کی کوشش کی تاہم اس خبر کی اشاعت تک ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہو سکا۔

پاکستان کے پاسپورٹ پر واضح لکھا ہوتا ہے کہ ’اس پاسپورٹ پر سوائے اسرائیل کے دنیا کے کسی بھی ملک میں سفر کیا جا سکتا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس کا واضح مطلب ہے کہ کم سے کم گرین پاسپورٹ پر کوئی اسرائیل سفر نہیں کر سکتا۔

اس دورے کا انتظام اسرائیل کی غیر سرکاری تنظیم ’شراکا‘ نے کیا تھا جو اسرائیل کے ایشیائی اور مشرق وسطی کے ممالک سے تعلقات بہتر بنانے کے لیے کام کرتی ہے۔

شراکا جس کا مطلب عربی زبان میں شراکت داری ہے، ایک غیر سرکاری تنظیم ہے جسے 2020 میں اسرائیل، متحدہ عرب امارات اور بحرین کے لوگوں نے ابراہیمی معاہدے پر دستخط کے بعد قائم کیا تھا۔

ترجمان دفتر خارجہ شفقت علی خان نے کہا کہ ’وہاں موجود یا جانے والے افراد کے بارے میں ہمیں کوئی اندازہ نہیں ہے، سوائے ایک فرد کے جس نے ٹویٹ کیا، ہم نہیں جانتے کہ وہاں کون تھے۔‘

اطلاعات کے مطابق اسرائیل جانے والے وفد میں ایک صحافی نے اپنے تجربہ سے متعلق سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر پوسٹ کی تھی تاہم انڈپینڈنٹ اردو کو اس سے متعلق کوئی پوسٹ نہیں ملی۔

ترجمان دفتر خارجہ شفقت علی خان نے مزید کہا ’چونکہ ہم ان افراد کو نہیں جانتے تھے، لہذا اس بارے میں کہ یہ کس قسم کا پاسپورٹ لے کر جا رہے تھے، اس پر تبصرہ نہیں کر سکتے۔ شاید وہ دوہری شہریت کے حامل ہوں، اس لیے میں اس پر تبصرہ نہیں کر سکتا۔‘

شفقت علی خان نے اسرائیل سے متعلق ملک کے موقف پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’جہاں تک پاکستان کے موقف کا تعلق ہے تو یہ بہت غیر مبہم ہے۔ پاکستان کے موقف میں تبدیلی یا اسرائیل کو تسلیم کرنے، فلسطین یا عرب-اسرائیل مسائل کے سوال پر کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہ بہت واضح اور مضبوط ہے۔‘

سال 2022 میں پاکستانیوں نے اسرائیل کا دورہ کیا تھا جس میں ایک پاکستانی صحافی احمد قریشی شامل تھے، پر شدید تنقید کی گئی تھی۔

غیر سرکاری اسرائیلی تنظیم شراکا کی بورڈ ممبر انیلہ علی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا ہے کہ حالیہ دنوں اسرائیل جانے والے اس وفد میں 15 افراد شامل تھے جس میں بنگلہ دیش کے شہری بھی تھے۔

انیلہ نے بتایا کہ ’ہم سال 2022 میں فشل بن خالد اور احمد قریشی کے ساتھ اپنے پہلے سفر کے بعد سے پاکستان، متحدہ عرب امارات اور برطانیہ سے پاکستانیوں کو لے جا رہے ہیں۔ اس دورے پر جانے والے وفد جس کے اراکین کے وہ نام ظاہر نہیں کر سکتیں، کا اسرائیل کے صدر اسحاق ہرزوگ نے ​​ہمارا پرتپاک استقبال کیا۔‘

انیلہ علی نے کہا کہ ’ہم امریکہ اور پاکستان دونوں سے پاکستانیوں کے ایک اور گروپ کو صدر ٹرمپ کے ابراہم معاہدے پر استوار کرنے کے لیے لے کر جائیں گے۔‘

انہوں نے انکشاف کیا کہ اسرائیل کی مسلمانوں کے لیے اپنی خاص امیگریشن ہے۔ جس کے تحت سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، مراکش، تیونس، بحرین، پاکستان اور بنگلہ دیش کے شہری خصوصی ابراہیم معاہدے کے پروگرام میں باقاعدگی سے اسرائیل آتے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان