ڈیجیٹل پلیٹ فارم ’رفتار‘ سے منسلک صحافی اور سما ٹی وی کے سابق ڈائریکٹر نیوز فرحان ملک کی فیک نیوز پھیلانے کے الزام میں گرفتاری کے بعد جمعے کو انہیں عدالت کے سامنے پیش کیا گیا۔
’رفتار‘ کے میزبان فیصل وحید کے مطابق فرحان ملک کو وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پیکا) کے تحت جمعرات کی شب گرفتار کیا گیا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق دیکھی گئی چارج شیٹ میں لکھا گیا کہ ان کو ’جان بوجھ کر ایسی معلومات پھیلانے‘ کے الزام میں گرفتار کیا گیا جو ’جعلی ہوں‘ یا ’جس سے خوف پھیلنے‘ کا خدشہ ہو۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفگتو کرتے ہوئے فیصل وحید نے بتایا: ’ایف آئی اے نے ہمیں اطلاع دی کہ فرحان ملک کو باضابطہ طور پر گرفتار کر لیا گیا ہے اور ان کے خلاف پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پیکا) کی دفعات کے تحت مقدمہ دائر کیا گیا ہے۔
’تاہم ایف آئی آر کی کاپی کے لیے بار بار تقاضے کے باوجود ہمیں ایف آئی آر کی کاپی فراہم نہیں کی گئی، جس سے معلوم ہو سکے کہ ان کے خلاف کیا الزام ہے۔‘
بقول فیصل وحید: ’ایف آئی اے نے وہ مقدمہ ریاست مخالف الزام کے تحت دائر کیا تھا، جس کی کارروائی عدالت میں جاری ہے۔ اس مقدمے کے لیے ایف آئی اے نے ہمیں واضح طور پر نہیں بتایا تھا کہ ہم پر الزام کیا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’ایف آئی اے مطابق رفتار کے ایک پاڈ کاسٹ میں آنے والے مہمان نے ریاست مخالف بات کی تھی۔ اب مہمان کی بات کے ہم ذمہ دار تو نہیں ہیں، کیونکہ ہم اپنے پاڈ کاسٹ پر انتباہ چلاتے ہیں۔‘
فیصل وحید کے مطابق: ’کچھ عرصہ قبل ایف آئی اے نے ’رفتار‘ پر مقدمہ دائر کیا تھا جس کی کارروائی عدالت میں چل رہی ہے۔
ڈیجیٹل پلیٹ فارم ’رفتار‘ کی جانب سے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر صحافی فرحان ملک کو ایف آئی اے کی جانب سے گرفتار کیے جانے کی اطلاع دی گئی۔
’رفتار‘ کے ویریفائیڈ ایکس اکاؤنٹ سے کی گئی پوسٹ میں کہا گیا: ’جمعے کی شام کو ایف آئی اے اہلکار بغیر کسی پیشگی اطلاع کے رفتار کے دفتر آئے، انہوں نے ہماری ٹیم کو ہراساں کیا، اپنے دورے کی کوئی وضاحت فراہم نہیں کی، اور زبانی طور پر فرحان ملک کو آج دوپہر ایک بجے سماعت کے لیے اپنے دفتر میں طلب کیا۔
’فرحان ملک نے مکمل تعاون کرتے ہوئے مقررہ وقت پر متعلقہ دفتر میں حاضری دی۔ تاہم، بغیر کسی جواز کے گھنٹوں انتظار کروانے کے بعد، حکام نے شام چھ بجے انہیں گرفتار کر لیا۔‘
’رفتار‘ کی پوسٹ میں مزید کہا گیا: ’ہم آزاد صحافت کو اس کھلی دھمکی پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہیں۔ رفتار سچ، جواب دہی، اور بلا خوف و خطر رپورٹنگ کے حق کے لیے کھڑا ہے۔ اس معاملے میں شفافیت کی کمی آزادی صحافت اور آزاد آوازوں کو نشانہ بنانے کے حوالے سے سنگین سوالات اٹھاتی ہے۔
’ہم فرحان ملک کی گرفتاری پر فوری وضاحت کا مطالبہ کرتے ہیں اور صحافیوں اور میڈیا پیشہ ور افراد کو غیر منصفانہ ہراسانی سے بچانے کی اپیل کرتے ہیں۔‘
ایف آئی اے سائبر کرائم رپورٹنگ سینٹر کے ایڈیشنل ڈائریکٹر شہزاد حیدر نے ڈان نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: ’فرحان ملک کے خلاف تقریباً تین ماہ قبل انکوائری شروع کی گئی تھی۔ صحافی پر الزامات سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ فرحان ملک نے سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کئی پروگرام کیے تھے اور آج انکوائری مکمل ہونے کے بعد باضابطہ طور پر انہیں گرفتار کیا گیا۔‘
صحافی کمیونٹی نے فرحان ملک کی گرفتاری کی مذمت کی ہے۔
رواں برس جنوری میں صدر مملکت کی جانب سے نے الیکٹرانک کرائمز کی روک تھام (پیکا ترمیمی) بل 2025 پر دستخط کرنے کے بعد یہ بل نافذ العمل ہو گیا ہے۔
اس قانون کے تحت جو فرد آن لائن ’فیک نیوز‘ پھیلانے میں ملوث پایا گیا اسے تین سال قید یا 20 لاکھ تک جرمانے یا دونوں سزائیں دی جا سکیں گی۔
اس قانون کے خلاف صحافی تنظیمیں، سیاسی جماعتیں، وکلا اور دیگر لوگ تاحال سراپا احتجاج ہیں۔