ایک امریکی جج نے جمعرات کو حکم جاری کیا کہ امریکی جامعہ کے ایک انڈین محقق کو ملک بدر نہ کیا جائے، یہ حکم ان کی گرفتاری اور حماس سے مبینہ تعلقات کے سبب ملک بدری کے خطرے کے بعد دیا گیا۔
بدر خان سوری، جو واشنگٹن ڈی سی کی جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں پوسٹ ڈاکٹریٹ فیلو کے طور پر کام کر رہے ہیں، کو اس وقت حراست میں لیا گیا، جب علمی دنیا میں یہ خدشات بڑھ رہے ہیں کہ تحقیق اور اظہارِ رائے کی آزادی کو مسائل درپیش ہیں— خاص طور پر جب سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دو ماہ قبل اپنی دوسری مدت صدارت کا آغاز کیا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی کے مطابق بدر خان سوری کے وکیل نے ان کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے گرفتاری کو ’نشانہ بنا کر کی گئی انتقامی کارروائی‘ قرار دیا، جس کا مقصد ’انہیں خاموش کر دینا یا کم از کم ان کی آواز اور ان جیسے دیگر افراد کی آوازوں کو دبانا ہے، جو فلسطین کے حقوق کی حمایت کرتے ہیں۔‘
جمعرات کی شام، وِرجینیا کی ایسٹرن ڈسٹرکٹ کورٹ کی جج پیٹریشیا ٹولیور جائلز نے حکم دیا کہ بدر سوری کو ’امریکہ سے اس وقت تک نہیں نکالا جائے گا جب تک کہ عدالت اس کے برعکس کوئی حکم نہ دے۔‘
امریکن سول لبرٹیز یونین (اے سی ایل یو) نے بھی بدر سوری کی ملک بدری روکنے کے لیے ہنگامی درخواست دائر کی ہے، جس کا کہنا ہے کہ انہیں لوزیانا میں ایک امیگریشن حراستی مرکز میں رکھا گیا ہے۔
اے سی ایل یو کی امیگرینٹس رائٹس وکیل سوفیہ گریگ نے کہا: ’کسی کو اس کے گھر اور خاندان سے جدا کرنا، اس کی امیگریشن حیثیت چھین لینا اور صرف سیاسی خیالات کی بنیاد پر حراست میں لینا — یہ صدر ٹرمپ کی جانب سے اختلافِ رائے کو خاموش کرنے کی ایک کھلی کوشش ہے۔ یہ سراسر غیر آئینی ہے۔‘
بدھ کو، فرانسیسی حکومت نے بھی ایک فرانسیسی خلائی سائنس دان کو ملک بدر کرنے کی مذمت کی، جنہوں نے ہیوسٹن میں ایک کانفرنس میں شرکت کرنا تھی۔ امریکی حکام نے ان کا سمارٹ فون چیک کیا اور امریکی پالیسی کے خلاف ’نفرت انگیز‘ پیغامات کی بنیاد پر انہیں واپس بھیج دیا۔
جارج ٹاؤن یونیورسٹی نے ایک بیان میں کہا: ’ڈاکٹر بدر خان سوری ایک انڈین شہری ہیں جنہیں عراق اور افغانستان میں قیامِ امن پر اپنی ڈاکٹری تحقیق مکمل کرنے کے لیے درست طریقے سے امریکی ویزا جاری کیا گیا تھا۔ ہمیں ان کی کسی غیر قانونی سرگرمی میں ملوث ہونے کا علم نہیں ہے اور نہ ہی ہمیں ان کی حراست کی کوئی وجہ بتائی گئی ہے۔‘
بدر سوری کے وکیل نے عدالت میں جمع کروائی گئی دستاویز میں کہا: ’نہ وزیر خارجہ مارکو روبیو اور نہ ہی کسی اور سرکاری عہدیدار نے سوری پر کسی جرم کا الزام لگایا یا یہ دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے کوئی قانون توڑا ہے۔‘
اس میں امریکی حکومت پر الزام لگایا گیا ہے کہ ’اس نے بدر خان سوری کو ان کے خاندانی تعلق اور آئینی طور پر محفوظ اظہارِ رائے کی بنیاد پر حراست میں لیا ہے۔‘
گرفتاری
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جارج ٹاؤن یونیورسٹی کی ویب سائٹ کے مطابق، سوری الولید بن طلال سینٹر فار مسلم-کرسچن انڈرسٹینڈنگ میں فیلو ہیں۔ انہیں پیر کو ورجینیا کے شہر آرلنگٹن میں ان کے گھر سے گرفتار کیا گیا، یہ خبر سب سے پہلے پولیٹیکو نے دی۔
محکمہ ہوم لینڈ سکیورٹی کی ترجمان ٹریشیا مک لافلن نے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر کہا کہ ’سوری جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں ایک غیر ملکی طالب علم تھے، جو سوشل میڈیا پر حماس کی پروپیگنڈا مہم چلا رہے تھے اور یہود دشمنی کو فروغ دے رہے تھے۔‘
مک لافلن نے یہ بھی الزام لگایا کہ سوری کے ’ایک معروف یا مشتبہ دہشت گرد، جو حماس کا سینیئر مشیر ہے، سے قریبی روابط‘ ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ محکمہ خارجہ نے امیگریشن قانون کی اس شق کے تحت سوری کو ملک بدر کرنے کا فیصلہ کیا، جو کسی ایسے ویزا ہولڈر کی ملک بدری کی اجازت دیتا ہے جس کی موجودگی امریکی خارجہ پالیسی کے لیے خطرہ سمجھی جائے۔
واضح رہے کہ امریکہ حماس کو ایک نامزد دہشت گرد تنظیم قرار دیتا ہے۔
جارج ٹاؤن یونیورسٹی نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ وہ ’اپنے کمیونٹی ممبرز کے آزادانہ اور کھلے مکالمے، غور و فکر اور تحقیق کے حق کی حمایت کرتی ہے، چاہے وہ خیالات کتنے ہی مشکل، متنازع یا ناپسندیدہ کیوں نہ ہوں۔‘
پولیٹیکو کی رپورٹ کے مطابق بدر خان سوری کے وکیل کی جانب سے دائر کردہ درخواست میں کہا گیا کہ سوری کی اہلیہ ایک فلسطینی نژاد امریکی شہری ہیں اور یہ جوڑا سمجھتا ہے کہ انہیں اس لیے نشانہ بنایا جا رہا ہے کیونکہ حکومت کو شک ہے کہ وہ اسرائیل سے متعلق امریکی پالیسی کی مخالفت کرتے ہیں۔