صوبہ خیبر پختونخوا کے سرکاری حکام نے بتایا کہ ضلع باجوڑ میں اتوار کو جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کے زیر اہتمام کنونشن کے دوران مبینہ خودکش دھماکے میں کم از کم 44 افراد جان سے گئے۔
خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق انسپیکٹر جنرل خیبر پختونخوا اختر حیات خان نے کہا کہ ابتدائی رپورٹس سے لگتا ہے یہ خودکش دھماکہ تھا۔
باجوڑ کے ضلعی پولیس آفیسر نذیر خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ دھماکہ خودکش تھا۔ انہوں نے کہا کہ دھماکے کی جگہ سے مزید شواہد اکھٹے کیے جا رہے ہیں تاکہ دھماکے کی تحقیقات شروع کی جا سکے۔
صوبائی مشیر برائے صحت ڈاکٹر ریاض انور نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو میں کہا کہ وہ 44 اموات کی تصدیق کرتے ہیں جبکہ 100 سے اوپر زخمی ہیں۔
پولیس اہلکار احسان خان نے نامہ نگار اظہار اللہ کو بتایا کہ خار میں جے یو آئی، باجوڑ کے کارکنان کی ایک تقریب تھی اور دھماکہ سٹیج کے قریب ہوا، جس کی وجہ سے اموات میں زیادہ تر باجوڑ کی مقامی قیادت شامل ہے۔
جے یو آئی میڈیا سیل کے مطابق مرنے والوں میں پارٹی کے خار میں امیر مولانا ضیا اللہ جان بھی شامل ہیں۔
افغانستان حکومت کے مرکزی ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا ٹوئٹر پر کہنا تھا کہ ’امارت اسلامیہ خیبرپختونخوا باجوڑ ایجنسی میں دھماکے کی مذمت کرتی ہے۔‘
انہوں نے متاثرہ خاندانوں کے ساتھ اپنی گہری تعزیت اور کا اظہار کیا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ایسے جرائم کسی طور بھی جائز نہیں ہیں۔‘
امارت اسلامیہ افغانستان خیبرپختونخوا کے علاقے باجوڑ ایجنسی میں جمعیت علمائے اسلام کے ایک پروگرام میں ہونے والے دھماکے کی مذمت کرتی ہے۔
— Zabihullah (..ذبـــــیح الله م ) (@Zabehulah_M33) July 30, 2023
امارت اسلامیہ متاثرہ خاندانوں کے ساتھ اپنی گہری تعزیت کا اظہار کرتی ہے اور شہداء کے لیے جنت الفردوس اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کی دعاگو ہے۔
۲/۱
اے ایف پی کے مطابق 400 سے زائد پارٹی کارکن اور ہمدرد کنونشن میں جمع تھے جب دھماکہ ہوا۔
دھماکے میں زخمی ہونے والے ایک 24 سالہ پارٹی کارکن صبیح اللہ نے اے ایف پی کو ٹیلی فون پر بتایا کہ وہ سٹیج پر پارٹی کی سینیئر قیادت کی آمد کے منتظر تھے جب جلسہ گاہ میں زور دار دھماکے کی آواز آئی۔‘
دھماکے میں زخمی ہونے والے افراد کی مدد کرنے والے عبداللہ خان نے بتایا کہ ’خیمہ ایک طرف سے گر گیا تھا اور اس میں پھنسے ہوئے لوگ باہر نکلنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اس دوران ہر طرف سراسمیگی پھیلی ہوئی تھی اور اس جگہ پر انسانی اعضا بکھرے ہوئے تھے اور کچھ لاشیں پڑی ہوئی تھیں۔‘
ریسکیو 1122 نے بتایا کہ زخمیوں کو ہسپتال پہنچا دیا گیا، جن میں سے 17 شدید زخمیوں کو تیمرگرہ ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔
ریسکیو 1122 کے مطابق مہمند، لوئر دیر، چارسدہ سے مزید نو ایمبولینسز منگوائی گئی ہیں۔
ڈاکٹر ریاض انور نے بتایا کہ لیڈی ریڈنگ ہسپتال سمیت پشاور کے تین ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ ہے۔
وزیرِ اعظم شہباز شریف نے واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن اور مرنے والوں کے لواحقین سے اظہار افسوس کیا ہے۔
وزیر اعظم ہاؤس سے جاری بیان کے مطابق انہوں نے زخمیوں کو بہترین طبی امداد کی فراہمی اور واقعے کے ذمے داروں کی نشاندہی کی ہدایت کی ہے۔
انہوں نے وفاقی وزیرداخلہ رانا ثنا اللہ اور خیبرپختونخوا کی حکومت سے واقعے کی رپورٹ بھی طلب کر لی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جے یو آئی کے ترجمان اسلم غوری نے میڈیا کو بیان جاری کیا ہے جس کے مطابق مولانا فضل الرحمٰن نے وزیر اعظم سے ٹیلی فون پر گفتگو میں دھماکے پر شدید تشویش کا اظہار کیا۔
انہوں نے وزیر اعظم سے مطالبہ کیا کہ زخمیوں کو باجوڑ سے پشاور منتقل کرنے کے لیے ہیلی کاپٹر فراہم کیا جائے، جس پر وزیر اعظم نے فوری احکامات جاری کر دیے۔
بیان کے مطابق مولانا فضل الرحمان نے بیرون ملک کا نجی دورہ منسوخ کر کے واپس پاکستان پہنچنے کا فیصلہ کیا ہے۔
جمعیت علمائے اسلام کے مرکزی سیکریٹری جنرل سینیٹر مولانا عبدالغفورحیدری نے دھماکے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ملک کے حالات خراب کیے جا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’دھماکے میں شہید کارکنان کی خبر سے صدمہ پہنچا، جماعتی کارکن ہمارا قیمتی نظریاتی اثاثہ ہیں۔‘
گورنر خیبر پختونخوا حاجی غلام علی نے ایک بیان میں انسانی جانوں کے ضیاع پر اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا کہ ’دکھ کی اس گھڑی میں وہ متاثرہ خاندانوں کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔‘
انہوں نے کمشنر اور ڈپٹی کمشنر باجوڑ سے ٹیلی فون پر گفتگو میں زخمیوں کو فوری طبی امداد پہنچانے کی ہدایت بھی کی۔
خار میں موجود صحافی فضل رحمٰن کی اضافی رپورٹنگ کے ساتھ۔