اب تک آپ نے خوفناک کہانیاں سنی ہوں گی۔ مصنوعی ذہانت (اے آئی) جو نسل پرست، صنف پرست یا دونوں ہے۔ سکریننگ ٹولز سفید فام مردوں کے سی وی کو بلند درجہ دے رہے ہیں، زبان کے ماڈل صنفی دقیانوسی تصورات کو مضبوط کر رہے ہیں، اور مصنوعی ذہانت بظاہر ہم جنس پرستوں کے خلاف تعصب رکھتی ہے۔
اور کیا ہمیں واقعی حیران ہونا چاہیے؟ آخر کار، تخلیقی اے آئی اپنا تربیتی ڈیٹا انسانوں سے حاصل کرتی ہے، اور انسان متعصب ہوتے ہیں۔ اگر آپ ان کے نظریات کو ایک جگہ اکٹھا کر دیں تو آپ کو تمام بری رائے، تمام فوری جائزے جو ہم دقیانوسی تصورات کی بنیاد پر روزانہ کرتے ہیں، مل جاتے ہیں۔ پھر آپ ایسے نظام بناتے ہیں جو ان تعصبات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کام کرتے ہیں۔
لیکن اس بحث میں بہت سی باریکیاں کھو رہی ہیں۔ حالیہ بحثوں کی طرح جو بہت زیادہ منقسم اور سیاسی رنگ اختیار کر چکی ہیں۔ کچا دودھ، فلورائیڈ، گھر پر پڑھائی، الیکٹرک گاڑیاں۔ حقیقت تکلیف دہ حد تک پیچیدہ ہے۔
مصنوعی ذہانت پر شک کرنا آسان ہے۔ درحقیقت یہ ضروری ہے کہ ہم ایسا کریں۔ یہ صرف انسانی ذہانت کا مجموعہ نہیں۔ یہ خود اپنے نئے مفروضے بناتی ہے اور کاروباری ادارے اسے کام پر لگانے کے لیے بے تاب ہیں۔
یہ طبی فائلوں کو غلط کام کے لیے کھنگالتی ہے، وکلا کو مشورے دیتی ہے اور سی وی کا تجزیہ کرتی ہے۔ برق رفتاری سے پی ڈی ایف فائل پڑھتی ہے اور تحریر سے تصویریں تیار کرتی ہے۔ چوں کہ ماڈلز کو فراہم کرنے کے لیے ہمارے پاس مستند، انسانوں کے تیار کردہ ڈیٹا کی کمی ہو رہی ہے، اس لیے کمپنیاں مزید تربیتی ڈیٹا تیار کرنے کے لیے خود اے آئی ماڈلز کی طرف رجوع کر رہی ہیں۔
اس مصنوعی ڈیٹا کے تعصب کا شکار ہونے کا زیادہ امکان ہے، اور اس پر زیادہ انحصار بہت سے مزید شرمناک لمحات کا باعث بن سکتا ہے - جیسے گوگل کے جیمینائی اے آئی کا 1940 کی دہائی کے جرمنی میں سیاہ فام نازی فوجیوں کی تصاویر تیار کرنا۔
اس کے باوجود، بڑے زبانی ماڈلز جو ایل ایل ایم کے نام سے جانے جاتے ہیں، مثال کے طور پر چیٹ جی پی ٹی، ہماری زندگیوں میں سب سے بڑی تکنیکی پیش رفت کی نمائندگی کرتے ہیں، اتنی ہی بڑی تبدیلی جتنی کہ انٹرنیٹ کی ترقی تھی۔ یہ ماڈل قائم رہنے کے لیے ہیں، اور ہمیں یہ معلوم کرنے کی ضرورت ہے کہ انہیں مثبت نتائج کے لیے کیسے استعمال کیا جائے۔
خوش قسمتی سے جب اے آئی کو صحیح طریقے سے بنایا جاتا ہے، تو یہ انسان کے مقابلے میں سماجی بھلائی کے فروغ میں بہت زیادہ بہتر ہے۔
اعلیٰ معیار کی اے آئی انسانی ریڈیولوجسٹوں سے بہتر طریقے سے سرطان کا پتہ لگا سکتی ہے۔
سیلاب کا پتہ پانچ دن پیشگی لگا سکتی ہے جو ماضی میں انسانی حساب کتاب سے کہیں بڑھ کر ہے اور بھٹک جانے والے ہائیکروں کو روایتی طریقوں کے مقابلے میں دو گنا بہتر طریقے سے تلاش کر سکتی ہے۔
تو ہم یہ کیسے یقینی بنائیں کہ بڑے فیصلے یعنی بھرتی، صحت کی دیکھ بھال، پولیسنگ، اور معاشرے بھر کے دیگر تمام کام مستقبل میں صحیح طریقے سے کیے جائیں؟ اس کے لیے اس بارے میں محتاط سوچ کی ضرورت ہوگی کہ ہم کب اور کہاں انسانی مداخلت چاہتے ہیں، اور کون سے کام مکمل طور پر خود مختار اے آئی ایجنٹوں کے ذریعے انجام دیے جا سکتے ہیں۔
اے آئی کو صحیح طریقے سے استعمال کرنے کا مطلب ہے یہ جاننا کہ یہ کب مدد کرتی ہے - اور کب نہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مثال کے طور پر بھرتی کے عمل میں، اے آئی ملازمت کی بہت ساری درخواستوں کو ترتیب دینے میں بہت مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ یہ تیزی سے ان لوگوں کو تلاش کر سکتی ہے جو اچھے امیدوار ثابت ہو سکتے ہیں، جس سے وقت کی بچت ہوتی ہے۔
جو چیز واقعی مددگار ہے وہ یہ ہے کہ اے آئی اچھے امیدواروں کو تلاش کر سکتی ہے جنہیں انسان شاید نظر انداز کر دیں۔ جیسے کوئی ایسا شخص جس کے پاس پی ایچ ڈی نہیں ہے لیکن اس نے برسوں سے یہ کام کیا ہے۔ یا کوئی ایسا شخص جو آپ کے صارفین کو بخوبی سمجھتا ہے کیوں کہ وہ خود بھی ان حالات سے گزر چکا ہے۔
اے آئی یہ چیزیں لوگوں کے مقابلے میں زیادہ آسانی سے دیکھ سکتی ہے کیوں کہ یہ ذاتی تعصب کے بغیر سب کچھ دیکھتی ہے۔ اے آئی آپ کو بہترین لوگ تلاش کرنے میں مدد کر سکتی ہے جنہیں آپ خود سے شاید نہ دیکھ پاتے۔
لیکن کیا ہم واقعی یہ چاہتے ہیں کہ انٹرویوز اے آئی کے ذریعے ہوں؟ جہاں نوکری کے لیے درخواست دینے والوں سے کہا جائے کہ وہ سکرین میں دیکھیں اور مشینی آواز کے سوالوں کے جواب دیں، بجائے اس کے کہ وہ دفتر آ کر کسی انسان سے بات کریں؟ میرے خیال میں تو نہیں۔
ایسا کرنا اس بات کو ہی غلط سمجھنا ہے کہ بھرتی کا عمل اصل میں ہوتا کس لیے ہے، اور وہ صرف یہ نہیں کہ کمپنی کو صحیح بندہ مل جائے، بلکہ یہ بھی دیکھنا ہوتا ہے کہ نوکری کرنے والے کے لیے بھی وہ کام موزوں ہے یا نہیں۔
تعلیم کے شعبے میں زیادہ تر لوگ سب سے پہلے یہی سوچتے ہیں کہ اے آئی کو اساتذہ کی مدد کے لیے استعمال کیا جائے۔ مثال کے طور پر پرچے چیک کرنا، طلبہ کی کارکردگی کا خلاصہ بنانا، یا سبق کا منصوبہ تیار کرنا۔ اور ہاں، یہ سب فائدہ مند ہے۔ لیکن یہ فائدہ معمولی سا ہے یعنی ایک ایسے نظام میں تھوڑی سی بہتری، جو پہلے ہی حد سے زیادہ دباؤ میں ہے اور وسائل کی کمی کا شکار ہے۔
جو بات کم واضح ہے، لیکن کہیں زیادہ انقلابی ہے، وہ یہ ہے کہ اے آئی کے ذریعے ہر بچے کے لیے ایک الگ ذاتی استاد بنایا جائے یعنی جو ہر وقت دستیاب ہو، جس کا صبر لا محدود ہو، اور جو اس بچے کے سیکھنے کے انداز اور رفتار کے مطابق ڈھلا ہوا ہو۔
اس کا مقصد اساتذہ کو بدلنا نہیں، بلکہ وہ تعلیم ہر بچے تک پہنچانا ہے جو ماضی میں صرف امیر ترین طلبہ کو ہی میسر تھی۔
ایسی سماجی تبدیلی جو سکول کے بچوں کے لیے ہو، معمولی بہتری نہیں ہوتی بلکہ یہ تو ایک انقلاب ہوتا ہے۔
اے آئی میں یہ زبردست صلاحیت ہے کہ یہ پورے نظام کو بدل کر رکھ دے۔ شرط یہ کہ ہم اتنے دلیر ہوں کہ اسے بنانے کا طریقہ ازسرنو سوچ سکیں، بجائے اس کے کہ پرانے اور فرسودہ طریقوں کی صرف نقل کریں۔
اے آئی کی سب سے بڑی خوبی یہ نہیں کہ یہ تعصبات بھری گذشتہ غلطیوں کو خودکار بنا دے یا پرانے نظام کی خامیاں دور کر دے، بلکہ اس کی خوبی یہ ہے کہ ہم اس سے کچھ نیا، بنیادی طور پر بہتر، اور ہر ایک کے لیے مساوی بنا سکیں۔
اصل بات یہ ہے کہ ہم اے آئی کو ایک بامعنی، انقلابی اور سوچ سمجھ کر اپنائی گئی جدت کے آلے کے طور پر دیکھیں۔ نہ کہ صرف شکستہ نظام کے لیے فوری مرہم کے طور پر۔ کیوں کہ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اے آئی تعصب کو بڑے پیمانے پر پختہ کر سکتی ہے، وہ بالکل درست ہیں، لیکن اس کا حل یہ نہیں کہ ہم ٹیکنالوجی سے منہ موڑ لیں۔
سچ یہ ہے کہ اے آئی اب ہمارے درمیان موجود ہے، اور اس کا حل یہ ہے کہ جو لوگ برابری اور انصاف میں یقین رکھتے ہیں، وہ اس ٹیکنالوجی کی سمت طے کرنے کے آگے آئیں۔
ایڈمنڈ کتھبرٹ، اے آئی اسٹارٹ اپ ’بولیو‘ (Boolio) کے شریک بانی ہیں۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
© The Independent