دسمبر کی ایک ٹھنڈی صبح، حاجی عبد اللہ خان پولیو سے متاثرہ صوبہ بلوچستان کے ایک چھوٹے سے گاؤں کلی ترات کی ٹوٹی پھوٹی گلیوں میں اپنے پانچ سالہ بیٹے محمد حمزہ، کے ہمراہ نکلتے ہیں، جسے سہارے کے بغیر چلنے میں مشکل ہوتی ہے۔
ان کا یہ سفر صرف ایک سیر نہیں بلکہ صوبے بھر میں ہونے والی انسداد پولیو مہم سے قبل گاؤں والوں سے ملاقات کا ایک مشن ہے۔
پولیو، جس سے بچے مفلوج ہو جاتے ہیں اور اس کا کوئی علاج نہیں ہے، چھوٹے بچوں کے لیے مستقل خطرہ بنا ہوا ہے۔
1994 سے اسلام آباد کی دہائیوں پر محیط پولیو کے خاتمے کی کوششوں کے باوجود پاکستان دنیا کے ان دو ممالک میں شامل ہے جہاں اب بھی پولیو موجود ہے۔ پولیو سے متاثرہ دوسرا ملک افغانستان ہے۔
ایک بہن کے جڑواں بھائی محمد حمزہ کو جولائی 2019 میں تیز بخار ہوا، جس کے بعد اس کا والد اسے کوئٹہ کے ایک ہسپتال لے گیا۔ جہاں ڈاکٹروں نے تصدیق کی کہ وہ ٹائپ ون وائلڈ پولیو وائرس کا شکار ہو چکا ہے۔
اس کے بعد، 74 سالہ خان انسداد پولیو مہم کے ایک زبردست حامی بن گئے ہیں، اور وہ بلوچستان کے پشین ضلع کے ہائی رسک علاقے سے دس کلومیٹر دور اپنے گاؤں میں پولیو کے قطرے پلانے سے ہچکچانے والے خاندانوں کو قائل کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔
ان کی مالی مشکلات دیکھتے ہوئے ان کی کوششیں خاص طور پر قابل تعریف ہیں، کیوںکہ ان کے خاندان کا گزارا صرف ان کے چار بچوں کی کمائی پر ہے جو دیہاڑی پر کام کرتے ہیں۔
عبداللہ خان نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’میرے گھر میں نو بچے ہیں اور حمزہ اپنی ماں کا پسندیدہ بچہ ہے۔ میری بیوی اسے پولیو ٹیموں سے چھپاتی تھی کیونکہ اسے خوف تھا کہ کہیں اسے کسی کی نظر نہ لگ جائے۔
’جب سے میرا بیٹا پولیو کا شکار ہوا ہے، میں نے پولیو ویکسین کے حق میں مہم شروع کر دی ہے تاکہ مزاحمت کرنے والے والدین کو اپنی تکلیف کی کہانی سنا کر قائل کر سکوں۔ اس طرح، میرے گاؤں اور پشین ضلع میں پولیو ویکسین کے خلاف مزاحمت میں کمی آئی ہے۔‘
پاکستان میں رواں سال پولیو کے 67 نئے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جبکہ افغانستان کی سرحد سے متصل شمال مغربی خیبر پختونخوا اور جنوب مغربی بلوچستان صوبوں میں انسداد پولیو کے قطرے پلانے والی ٹیموں اور ان حفاظت پر مامور سکیورٹی اہلکاروں پر حملے کیے گئے ہیں۔
پولیو کے خاتمے کے لیے نیشنل ایمرجنسی آپریشن سینٹر (این ای او سی) کے مطابق بلوچستان میں رواں سال سب سے زیادہ کیسز رپورٹ ہوئے، 13 اضلاع میں 27 کیسز ریکارڈ کیے گئے۔
گذشتہ ماہ، بلوچستان حکومت نے سکیورٹی خدشات اور صوبائی صحت کے عملے کے بائیکاٹ کی وجہ سے لاجسٹک چیلنجز کے باعث پولیو کے خلاف مہم کو دو ہفتوں کے لیے مؤخر کر دیا تھا۔
خان نے بتایا کہ پولیو وائرس نے حمزہ کی بائیں ٹانگ اور بازو کو متاثر کیا ہے، جس کی وجہ سے کبھی کبھار یہ مکمل طور پر کام کرنا بند کر دیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’اگرچہ وہ سہارے کے ساتھ چل سکتا ہے، لیکن کبھی کبھی ان کی ٹانگ اور بازو کام کرنا بند کر دیتے ہیں اور وہ زمین پر گر جاتا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ملک بھر میں ویکسینیشن مہم اور معروف مذہبی علما اور سیاسی شخصیات کی حمایت کے باوجود پاکستان میں بہت سے والدین پولیو ویکسین کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہیں۔
صحت عامہ کے مطالعے اس ہچکچاہٹ کو آگاہی کی کمی، غربت اور دیہی رہائش جیسے عوامل سے منسوب کرتے ہیں۔
بلوچستان ایمرجنسی آپریشن سینٹر کے ایک اہلکار ڈاکٹر نجیب اللہ خان نے بتایا کہ 2024 میں بلوچستان میں زیادہ تر کیسز ایسے بچوں کے تھے جن کے والدین نے انہیں ویکسینیشن مہم کے دوران چھپایا تھا۔
عبداللہ خان کو ’انسداد پولیو ویکسینیشن کا سفیر‘ قرار دیتے ہوئے ڈاکٹر نجیب اللہ خان نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’ہمیں حاجی عبد اللہ خان جیسے والدین کی ضرورت ہے جو دوسرے بچوں کو زندگی بھر کی معذوری سے بچانے میں ہماری مدد کر رہے ہیں۔‘
صوبے کے تمام 36 اضلاع میں 30 دسمبر کو سب نیشنل پولیو ویکسینیشن مہم کا آغاز کیا گیا تھا جو پانچ جنوری تک جاری رہے گی۔
ڈاکٹر نجیب اللہ نے 2025 میں پولیو کیسز میں کمی پر امید کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم نے یونین کونسل سے لے کر صوبائی سطح تک کی خامیوں کو دور کیا ہے اور اس کے لیے اپنی حکمت عملی کو ازسرنو ترتیب دیا ہے۔‘
عبداللہ خان نے اپنے بیٹے کے مستقبل کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا، جو مذہبی تعلیم کے لیے بمشکل قریبی مدرسے تک جا پاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’میں اپنے بیٹے کے مستقبل کے بارے میں فکرمند ہوں کیونکہ جب میں اور میری بیوی زندہ نہیں رہیں گے تو میرا بیٹا گلیوں میں گرتا رہے گا۔ کون اسے کھلائے گا اور صاف کرے گا؟ کوئی نہیں۔‘
انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے والدین پر زور دیا کہ وہ ہر قیمت پر اپنے بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگوائیں۔
بشکریہ عرب نیوز