بلوچستان کے ضلع مستونگ میں واقع لک پاس ٹنل کیا ہے؟ اس ٹنل کو کب بنایا گیا اور سمگلنگ کی روک تھام کے لیے یہ مقام اب کتنی اہمیت اختیار کر چکا ہے۔ انڈپینڈنٹ اردو نے یہاں کا دورہ کیا ہے تاکہ ان تمام سوالوں کے جواب حاصل کیے جا سکیں۔
لک پاس بنیادی طور پر پہاڑی درہ ہے اور یہ قومی شاہرہ این 25 کا حصہ ہے جو کوئٹہ شہر کے جنوب میں ضلع مستونگ میں واقع ہے۔
ضلع مستونگ قلات ڈویژن کا حصہ ہے۔ اس ٹنل کی تعمیر 2006 میں شروع ہوئی اور 2008 میں مکمل ہوئی، اس ٹنل کی لمبائی 180 میٹر ہے۔
سکیورٹی چیلنجز کے علاوہ بلوچستان کا دوسرا بڑا مسئلہ سمگلنگ
بلوچستان کے اندرونی چیلنجز میں سکیورٹی کے ساتھ ساتھ جو ایک اور بڑا مسئلہ ہے وہ ہے سمگلنگ کا، جس سے نمٹنے کے لیے بلوچستان ایف سی نارتھ نے کسٹم حکام کے ساتھ مل کر 12 مشترکہ چیک پوائنٹس بنا رکھے ہیں لیکن اس کے باوجود کچھ ایسے چور راستے ہیں جن سے سمگلنگ کی اشیا کوئٹہ شہر تک پہنچ جاتی ہیں تاہم کچھ لک پاس ٹنل تک پہنچ کر پھر پکڑی جاتی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لک پاس ٹنل پر ایک ٹرک ہماری موجودگی میں پکڑا گیا جس میں ایران سے کھانے پینے کی سستی اشیا کوئٹہ شہر کی جانب لے جائی جا رہی تھیں۔
ٹرک ڈرائیور نے کہا وہ تو ٹرک چلاتا ہے اور سرحد سے کوئٹہ شہر تک مال لے جانے کا معاوضہ وصول کرتا ہے۔
جس دکان دار کا یہ سامان تھا اس سے جب انڈپینڈنٹ اردو نے استفسار کیا تو اس نے جواب دیا کہ ’میں غریب آدمی ہوں اور پاکستان میں مہنگائی ہے، کوئی اور ذریعہ معاش نہیں ہے اگر میں یہ سستی اشیا بھی نہ بیچوں تو بچوں کا پیٹ کہاں سے پالوں گا۔‘
لک پاس ٹنل ایک اہم تجارتی راستہ کوئٹہ کو نہ صرف این25 کے ذریعے کراچی سے ملاتا ہے بلکہ قومی شاہرہ این 40 سے بلوچستان کے اہم شہروں گوادر، تربت، دالبدین تافتان، پنجگور سے بھی ملانے کا راستہ ہے جہاں ایران سے آنے والی اشیا پاکستان میں داخل ہوتی ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو کی نمائندہ نے جب کسٹم انسپکٹر فراز سے سوال کیا کہ سمگلنگ کی روک تھام کیسے کی جاتی ہے؟ کون سی اشیا سمگل ہوتی ہیں اور کیسے پکڑی جاتی ہیں؟ تو انہوں نے کسٹم کے گودام کا دورہ کرواتے ہوئے انہیں وہ ٹرک اور کنٹینرز دکھائے جو پکڑے گئے تھے جن میں ٹائرز اور سگریٹس تھے۔
وہاں چینی اور گھریلو استعمال کی اشیا بھی تھیں، اس کے علاوہ وہاں گاڑیاں بھی کثیر تعداد میں کھڑی تھیں۔
ان سے جب گاڑیوں کے حوالے سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ ’چھ ماہ کے عرصے کے دوران پکڑی گئی گاڑیوں کی نیلامی کر دی جاتی ہے، لیکن اس کا سارا قانونی عمل ہے اخبار میں نیلامی کا اشتہار دیا جاتا ہے اور مقررہ تاریخ پر نیلامی کی جاتی ہے۔‘
سمگلنگ کا سامان پاکستان کیسے آتا ہے؟
ایف سی بلوچستان کی جانب سے ان تمام روٹس پر 384 کیمرے لگائے گئے ہیں جن کی کنٹرول روم میں 24 گھنٹے مانیٹرنگ بھی کی جاتی ہے۔
یہاں پر یہ سوال بھی ہے کہ ایران اور افغانستان سے سمگلنگ کا سامان پاکستان کی حدود میں کیسے داخل ہوتا ہے جو اس ٹنل تک پہنچ جاتا ہے؟
سکیورٹی حکام کے مطابق اس کا مرکزی روٹ قومی شاہرہ این 40 ہے جو ایران اور افغانستان سے آنے والی اشیا کی ترسیل کا راستہ ہے، جہاں پر ایران اور افغانستان کی جانب سرحد پر مختلف مقامات پر کئی چور راستے ہیں جن پر باڑ تو لگ چکی ہے لیکن سمگلرز کی جانب سے اکثر اوقات اس باڑ کو توڑا جاتا ہے اور پھر گدھوں پر سامان لادھ کر پاکستان کی حدود میں داخل کیا جاتا ہے۔
بعد ازاں جہاں سے وہ گاڑیوں میں منتقل کر کے آگے پہنچایا جاتا ہے، وہ سامان جب مشترکہ چیک پوائنٹس پر پہنچتا ہے تو دستاویزات نہ ہونے یا جعلی دستاویز کی وجہ سے پکڑا جاتا ہے۔