بلدیہ عظمیٰ کراچی نے میونسپل یوٹیلٹی چارجز اینڈ ٹیکسز (ایم یو سی ٹی) میں اضافے کے ساتھ ہی اعلان کیا ہے کہ آئندہ سے شہریوں کو ٹیکسز کراچی کو بجلی فراہم کرنے والی واحد کمپنی کے الیکٹرک کے بلوں میں ادا کرنے ہوں گے۔
یعنی اب شہر قائد کے باسیوں پر بلدیہ عظمیٰ کی جانب سے عائد کیے گئے تمام ٹیکسز اور یوٹیلٹی چارجز ان کے بجلی کے بلوں میں شامل کیے جائیں گے۔
بلدیہ عظمیٰ کراچی کے ڈائریکٹر میڈیا دانیال سیال نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ بجلی کے بلوں کے ذریعے یوٹیلٹی چارجز اور ٹیکسز کی وصولی ایک شفاف طریقہ ہے جس سے اکٹھے ان مدوں میں اکٹھی کی گئی رقوم میں ماضی کی نسبت بہت بڑا اضافہ ہوا ہے۔
کے الیکٹرک کے ذریعے ادائیگی کا طریقہ
بلدیہ عظمی کراچی نے 14 اپریل کو ایک قرداد کے ذریعے میونسپل یوٹیلیٹی چارجز اینڈ ٹیکسز میں اضافے کے علاوہ ان کی ادائیگی کو بجلی کے ماہانہ خرچ کیے یونٹس سے بھی منسلک کر دیا تھا۔
بلدیہ عظمیٰ کراچی کے ٹیکسز اور یوٹیلیٹی چارجز کے نئے فارمولے کے تحت بجلی کے ماہانہ 100 یونٹ تک استعمال کرنے والے صارفین سے کوئی ٹیکس وصول نہیں کیا جائے گا، جب کہ 101 سے 200 یونٹ خرچ کرنے والے صارفین کو 20 روپے ادا کرنا ہوں گے۔
اسی طرح ماہانہ 201 سے 300 یونٹ تک استعمال کرنے والوں کو 40 روپے اور بجلی کے 301 سے 400 یونٹ خرچ کرنے والے صارفین کو بلدیہ عظمیٰ کراچی کے یوٹیلٹی چارجز اور ٹیکسز کی مد میں 100 روپے ادا کرنا ہوں گے۔
نئے فارمولے کے مطابق بجلی کے ماہانہ 401 سے 500 یونٹ تک خرچ کرنے والے صارفین 125 روپے ادا کریں گے، جب کہ 501 سے 600 یونٹ تک خرچ کرنے والوں سے 150 روپے وصول کیے جائیں گے۔
ماہانہ 601 سے 700 یونٹس تک خرچ کرنے والوں کو 175 روپے ادا کرنا ہوں گے، جب کہ 701 سے زیادہ یونٹ استعمال کرنے والے صارفین کو 300 روپے ادا کرنا ہوں گے۔
اس کے علاوہ تمام کمرشل بلوں پر 400 اور صنعتی یونٹس کے بلوں پر 500 روپے ٹیکس لاگو ہوں گے۔
میونسپل یوٹیلٹی چارجز اینڈ ٹیکسز کیوں وصول کیے جاتے ہیں؟
بلدیہ عظمیٰ کراچی کے ڈائریکٹر میڈیا دانیال سیال نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ بلدیہ عظمیٰ کی جانب سے شہر کے بنیادی انفراسٹرکچر بشمول نالیوں کی تعمیر اور مرمت، رہاشی علاقوں کی گلیوں کی فرش بندی، راستوں کی تعمیر سمیت چھوٹے بڑے کاموں کے لیے یہ ٹیکسز وصول کیے جاتے ہیں۔
دانیال سیال کے مطابق: ’ماضی میں بلدیہ عظمی کراچی میں مطلوبہ تعداد سے زائد ملازمین کی تقرریوں کے باعث ان کی تنخواہوں اور پینشن کی مد میں اس وقت کراچی میونسپل کارپوریشن کو سالانہ 11 ارب روپے خسارے کا سامنا ہے۔
’اس لیے مرمت اور گلیوں کی فرش بندی سمیت مختلف ترقیاتی کاموں کے لیے مناسب ٹیکس وصول کرنا ضروری ہے، ورنہ بلدیہ عظمی کو مزید خسارے کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے اور اس شہر میں روزمرہ کے بنیادی کاموں کے لیے دیگر شہروں کی نسبت خطیر رقم مطلوب ہے، جس کا تھوڑا سا حصہ ٹیکسز کی مد میں شہریوں سے وصول کیا جاتا ہے۔
’گذشتہ ادوار میں سب سے کم ٹیکس بھی 500 روپے تھا، مگر موجودہ میئر نے وہی ٹیکس کم کر کے 20 روپے کر دیا ہے۔‘
بلدیہ عظمیٰ کراچی کے ریکارڈ کے مطابق کراچی میں فائر اینڈ کنزروینسی ٹیکس، واٹر ٹیکس کے ساتھ 1979 سے وصول کیا جا رہا تھا۔ 2001 میں نئے بلدیاتی نظام کے تحت کراچی میں سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کا نظام نافذ کر کے میئر کو ناظم کا درجہ دیا گیا۔ جس نظام کے تحت نعمت اللہ خان ناظم کراچی بنے تھے۔
اس وقت کے ناظم کراچی نعمت اللہ خان کے دور میں مختلف ٹیکس وصول کیے جاتے تھے، جنہیں بعد میں آنے والے ناظم مصطفیٰ کمال کے دور میں یک جا کر ایک ٹیکس بنایا گیا تھا، جس کا نام ’میونسپل یوٹیلیٹی کنزروینسی ٹیکس‘ یا ایم یو سی ٹی رکھا گیا۔
ٹیکسز کی وصولی کے لیے بجلی کے بلوں پر انحصار کیوں؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دانیال سیال کے مطابق ’سابق میئر کراچی وسیم اختر کے دور میں یہ ایم یو سی ٹی ٹیکس ایک نجی کمپنی وصول کرتی تھی۔ اس وصولی کا بڑا حصہ اس کمپنی کو دیا جاتا تھا۔ اب ہم نے ٹیکس کی رقم کو انتہائی کم کر کے 50 سے 200 روپے تک کر دیا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ٹیکسز کی وصولی کے لیے کے الیکٹرک کی خدمات لی گئی ہیں تاکہ بجلی کے بلوں میں یہ ٹیکسز عوام سے وصول کیے جا سکیں۔
’ان ٹیکسز کے لیے بجلی کے بلوں کا انتخاب مختلف وجوہات کی بنیاد پر کیا گیا ہے۔ ایک تو یہ ہے کہ بجلی کے بلوں کی معرفت وصولی سے ٹیکس کی وصولی شفاف رہتی ہے۔
انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’ٹیکس کی وصولی کے لیے ٹیکسز کو بل پر تحریر کیا جاتا ہے اور وصولی کے بعد کے الیکٹرک چیک کی صورت میں بلدیہ عظمیٰ کو ادائیگی کرتا ہے، جو ایک شفاف طریقہ ہے۔
’کے الیکٹرک پاکستان سٹاک ایکسچینچ کی ایک لسٹڈ کمپنی ہے۔ اب کسی نجی کمپنی یا فرد کے بجائے ایک شفاف طریقے سے ٹیکس وصول ہو گا اور رقم بلدیہ عظمیٰ کو ملے گی، جس سے انفراسٹرکچر کا کام کرایا جا سکے گا۔‘
دانیال سیال کے مطابق ماضی میں ان ٹیکسز کی وصولی کے لیے نجی کمپنیز یا کانٹریکٹرز کی خدمات لی جاتیں تھیں، جس سے ایک تو انہیں اس وصولی کے لیے بھاری رقوم ادا کی جاتی تھیں اور دوسرا کنٹریکٹرز یہ نہیں بتاتے تھے کہ کتنے افراد سے کتنا ٹیکس وصول ہوا۔
’اس وقت سالانہ 20 سے 21 کروڑ روپے وصول ہوتے تھے، مگر اب یہ رقم بڑھ کر دو ارب روپے سالانہ تک پہنچ گئی ہے، جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بجلی کی بلوں کے ذریعے ٹیکسز کی وصولی ایک بہتر طریقہ ہے۔‘
جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم پاکستان کی ٹیکسز میں اضافے کی مخالفت
جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم پاکستان نے بلدیہ عظمیٰٰ کراچی کی جانب سے میونسپل یوٹیلٹی چارجز ٹیکس (ایم یو سی ٹی) میں اضافے کی شدید مخالفت کرتے ہوئے اس اضافے کو عوام پر معاشی بوجھ قرار دیا ہے۔
بلدیہ عظمیٰ کراچی میں جماعت اسلامی کے پارلیمانی لیڈر اور اپوزیشن رہنما سیف الدین ایڈووکیٹ نے اپنی بیان میں کہا کہ میونسپل یوٹیلٹی چارجز ٹیکس (ایم یو سی ٹی) میں اضافہ کسی صورت قبول نہیں ہے۔
ایم کیو ایم پاکستان کے اراکین سندھ اسمبلی نے اپنے مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ بلدیہ عظمیٰ کراچی کی جانب سے میونسپل یوٹیلیٹی چارجز ٹیکس میں اضافے کی تجویز کی سخت مذمت کرتے ہیں اور میونسپل یوٹیلٹی چارجز ٹیکس میں اضافے سے کراچی کے شہریوں پر اضافی بوجھ پڑے گا۔
شہریوں کا ردعمل
میونسپل یوٹیلٹی چارجز اینڈ ٹیکسز (ایم یو سی ٹی) میں اضافے اور ٹیکس وصولی کے لیے بجلی کے بلوں میں شامل کرنے پر ردعمل دیتے ہوئے کراچی کے صدر ٹاؤن کے رہائشی محمد جاوید نے کہا کہ انہیں کسی نے اس نئے اضافے کے متعلق نہیں بتایا۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے محمد جاوید نے کہا: ’بجلی کے بل میں نہ جانے کون سے کون سے ٹیکسز پہلے سے لگے ہوئے ہیں۔ گذشتہ مہینے میرے بجلی کے بل میں بجلی کی قیمت پانچ ہزار تین سو 78 روپے تھے، جب کہ سیلز ٹیکس اور نہ جانے کون سے ٹیکسز سمیت ٹوٹل بل نو ہزار دو سو روپے تھا۔
’کوئی بھی ٹیکس لگانے سے پہلے نہ تو عوام سے پوچھا جاتا ہے اور نہ ہی انہیں بتایا جاتا ہے۔ جس کے جو مرضی نیا ٹیکس لگا دے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہمیں ٹیکس دینے میں کوئی مسئلہ نہیں مگر اس ٹیکس کے بدلے میں ہمیں کیا ملے گا؟ حکومت اس طرح نئے ٹیکس لگانے سے گریز کرے۔‘