گرمیوں کی لمبی دوپہروں میں جب وقت نہ گزرنے کی شکایت سے تنگ آ کے ہم لوگ پنکھوں والے کمرے چھوڑ، ننگے پاؤں تپتی گلی میں نکل جاتے تھے، تب، اگر کوئی بتاتا کہ ایک وقت ایسا آئے گا جب تمہارے ہاتھ میں ٹی وی، ٹیپ ریکارڈ، وی سی آر، ریڈیو، اخبار، ہزاروں کتابیں اور فلمیں ہوں گی، تب بھی تم اسی طرح بور ہو گے تو میں بالکل یقین نہ کرتا۔
مطلب ایسے ہو کس طرح سکتا ہے؟
25 روپے کی کیسٹ میں 10 گانے آتے تھے، دس روپے تین گھنٹے کی فلم کے بدلے گلانے پڑتے تھے، اخبار اور کتابوں کا خرچہ الگ ۔۔۔ یہ سب مفت ہوں گے، ان کے ساتھ ٹیلیفون بھی ہو گا اور ویڈیو کال بھی ہو سکے گی، پی سی او سے نہیں، اپنے ذاتی فون سے۔
بغیر کسی خرچے کے، اور ساری زندگی میں ان سب چیزوں کا مالک ہوں گا ۔۔۔ اور پھر بھی میں بور ہوں گا؟ یہ تو سوچ کی ہر ایک حد سے باہر کا سوال ہوتا۔
ایک آدمی اتنے سارے وسائل رکھنے کے باوجود کیسے بور ہو سکتا ہے؟
تب دوپہر کو ٹی وی بھی نہیں چلتا تھا بلکہ شام کو مکھی آنا بند ہوتی اور پی ٹی وی کا وہ بِلے کی مونچھوں جیسا لوگو ایک کمال بورنگ میوزک کے ساتھ طلوع ہوتا، کچھ دیر چپکا رہتا اور وقت رینگ رینگ کے آگے بڑھتا، پھر کسی انسان کی شکل نظر آتی، رات آٹھ بجے جا کے ڈھنگ کی چیزیں کچھ دکھاتے اور 12 بجے وہ بھی ختم۔
سُن زندگی تھی، سست، بے آواز، خاموش ۔۔۔ ہول کیسے اٹھتے ہیں خاموشی سے، بوریت سے، اگر آپ نے کبھی وہ دوپہریں گزاری ہوں تو آپ کو سمجھ آئے۔
مطلب کہ بے مقصدیت، بے کاری اور انتہائی سست قسم کا وقت ۔۔۔ یعنی اتنا آہستہ کہ بعض اوقات اگر زبردستی دوپہریں کمروں میں گزارنا پڑتیں تو اپنے دماغ میں پنکھا چلنے سے جو آوازیں آتی ہیں ان کے میوزک پہ میں مختلف لفظ بٹھانا شروع کر دیتا تھا۔
چل بے، چل بے، چل، با ۔۔ ہر ۔۔ جا ۔۔۔ چل بے، چل بے، چل ۔۔۔ یہ اس موسیقی سے ایک بندش پیش خدمت تھی۔
ان دوپہروں میں، اس وقت تفریح کی جو معراج ہوا کرتی تھی، یعنی آخری حد کہ جو کوئی بادشاہ بھی افورڈ نہیں کر سکتا ہو گا، مثال کے طور پہ وہی ویڈیو کال، گانوں کی ویڈیوز ۔۔۔ تو آج وہ سبھی کچھ اپنے ہاتھ میں ہے لیکن بوریت استاد جی پھر بھی ہے۔
میں نے بہت سوچا، پھر نیٹ پہ کھوجتا رہا، کُل ملا کے بات سمجھ میں یہ آئی کہ معمول انسان کو بور کرتا ہے، امکانات کا ختم ہو جانا بور کرتا، ہر چیز دسترس میں ہونا بور کرتا ہے بلکہ بعض اوقات حیرت کا امکان ختم ہونا بھی آپ کو بوریت میں ڈال سکتا ہے۔ یعنی اب کوئی آدمی اڑتا ہوا بھی آ کے سامنے کھڑا ہو جائے تو ہم لوگ حیران نہیں ہوں گے بس ڈھونڈیں گے کہ اس نے انجن کدھر فٹ کیا ہوا ہے۔
قبرستان میں آدھی رات کو اگر کفن اوڑھے لاش آپ کا راستہ روک لے تو یقین کریں آپ ڈرنے کی بجائے اس ویڈیو بنائیں گے اور اکیلے نہ ہوئے تو دوسرا بندہ اس کی چادر کھینچنے کی بھی کوشش کرے گا تاکہ پتہ چلے کہ اندر کیا ڈرامہ ہے۔ ہاں ڈریں گے آپ تب اگر سامنے پستول ہو ۔۔۔ باقی کیا بچا ہے ڈرنے کو؟
یعنی چانسز ختم ہو گئے ہیں ڈرنے کے، حیران ہونے کے، سرپرائز کے ۔۔۔ مجھ سے پوچھیں تو سوائے ایک چیز کے مجھے اب حیرت کبھی نہیں ہو سکتی، صرف ایک کرتب رہ گیا ہے جو سائنس نے اب تک نہیں دکھایا، سالم آدمی کو شعاعوں میں تبدیل کر کے ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانا۔ یعنی میں ایک مشین کے سامنے بیٹھوں، وہ مجھے روشنی کے ذرات میں تبدیل کرے اور روشنی ہی کی رفتار سے مجھے امریکہ پہنچا دے۔
دوپہر کا کھانا میں ادھر چھوٹی بہن کے گھر کھاؤں اور شام کو ان کے وہاں کی مشین مجھے واپس یہاں بھیج دے۔ اس سے شاید مجھے حیرانی کا موقع مل جائے، نیا پن نہ ہونے کی بوریت کم ہو جائے، ورنہ کیا ہے باقی؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لیکن دوسری طرف اسی بوریت نے مجھے زندگی سے نمٹنا بھی سکھایا ہے۔ دنیا کی بہترین اور بے شمار کتابیں وہی گرم دوپہریں گزارتے ہوئے میں نے پڑھیں، سب سے اچھی تنقیدی رینکنگ والی نیٹ فلکس سیریزیں میں نے اسی بوریت کاٹنے کے چکر میں دیکھیں، سچے لوگوں کے گانے جو دماغ کو سکون دیتے ہیں، وہ بھی اسی بوریت مارنے کو سنے، بے تحاشا سوچا، بے شمار چیزیں لکھیں، کئی شوق پالے، پورے کیے، چھوڑ دیے، اور اس دوران ملے کئی تجربے اور سبق، وہ باندھ کے اُدھر، دماغ کے اوپر والی پرچھتی پہ کہیں رکھ دیے اور بس چلتا گیا۔
آج بیٹھا اور کافی سوچا، دماغ خالی تھا بالکل، بوریت کا مسلسل والا بلیک ہول چل رہا تھا، اب یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اس میں سے فقیر کچھ نکال کے بانٹے نہ؟
تو بس کشکول سے جو نکلا وہ یہ ہے کہ بوریت ہی آپ کو ہمیشہ کچھ نیا کرنے کی ترغیب دیتی ہے، بوریت ہی میں روٹین توڑ کے آپ کوئی دوسرا کام شروع کرتے ہیں جو بعض اوقات فائدہ مند بھی ثابت ہو جاتا ہے، بوریت ہی بنیادی طور پہ دماغ کو آرام دیتی ہے، بوریت ہی میں زندگی کے مشکل فیصلے آپ پوری توجہ سے کر سکتے ہیں، بوریت ہی میں خود کو سمجھنے کا موقع ملتا ہے اور بدترین بوریت میں ہی بہترین تخلیقی صلاحیتیں پیدا ہوتی ہیں!
لیکن بوریت میں بہرحال سب سے بڑی برائی یہ ہے کہ بندہ کم بخت شدید بور ہو جاتا ہے اور کبھی کبھار کچھ ناپسندیدہ فیصلے بھی ہو جاتے ہیں۔
ان فیصلوں سے بچیں، زندگی کو دھکا دیں، سب کچھ ٹائم پاس ہے، گرمیوں کی وہ دوپہریں اب نہیں آئیں گی، سردیوں کی یہ راتیں بھی جانے والی ہیں ۔۔۔ جو چیز رہنے والی ہے وہ آپ اور آپ کی بوریت ہے۔
یہ اب سر کے ساتھ ہی جائے گی، خدا خوش رکھے!
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔