عام طور پر صوفوں کے جو سیٹ ہم خریدتے ہیں اس میں تھری، ٹو، ون کا حساب ہوتا ہے۔
تین بندوں کے بیٹھنے کا صوفہ، دو بندوں کی ایک سیٹ اور سنگل نشست والا ایک صوفہ الگ سے۔ ٹوٹل چھ مہمانوں کے لیے اصولاً یہ سیٹ لایا جاتا ہے۔
کبھی ٹو سیٹر صوفے پہ آپ نے دوسرا بندہ ساتھ بٹھایا ہے؟ بلکہ تین بندوں والے صوفے پہ بھی دو بندے سائیڈوں پہ بیٹھتے ہیں، درمیان میں کسی کو بیٹھے کتنی ہی بار دیکھا ہے؟
تو پھر ہم سیدھا سیدھا تین بندوں والا صوفہ اور ساتھ میں اپنی ضرورت کے حساب سے دو یا تین سنگل سیٹر صوفے کیوں نہیں خرید لیتے؟
ایک اور چیز ’دیوان‘ کے نام پہ ہمیں ٹکائی جاتی ہے۔ اس میں یا تو ٹیک لگانے کی جگہ نہیں ہو گی یا اس کا ڈیزائن ایسا ہو گا کہ بیٹھیں تو اس کے اندر دھنس جائیں، ٹانگیں غیر آرام دہ سے پوز میں ہوں یا پھر اس کا ڈیزائن بھی زیادہ سے زیادہ ایک شخص کے لیے ہی پریکٹیکل ہو گا۔
کرسی دیکھ لیں، آپ کو یاد ہے کہ آخری مرتبہ کسی مکمل آرام دہ کرسی پہ آپ کب بیٹھے تھے؟ ڈائننگ ٹیبل ہے آپ کے گھر؟ جائیں اور دیکھیں اس پہ بیٹھ کے، اس کے بازو کیوں نہیں ہیں؟ کس حکیم نے آخری مرتبہ سوچا ہو گا کہ بغیر بازو والی کرسی پہ بیٹھ کے اور کھانے والی میز پہ ہاتھ رکھ کے ہی ڈنر کرنا سب سے زیادہ ’آرام دہ‘ کام ہو سکتا ہے؟
ایسا کیوں ہو رہا ہے؟
اس لیے کہ فرنیچر اور اسے استعمال کرنے والوں کے بیچ میں ’شوروم‘ آ چکے ہیں۔
کوئی بھی چیز آپ کو چاہیے ہوتی ہے، دکان پہ گئے، پسند کی، قیمت بھری اور لے آئے۔ پہلے ایسا نہیں ہوتا تھا۔
دکانیں جس رفتار سے بڑھتی جا رہی ہیں، اسی حساب سے فرنیچر میں آرام کی جگہ سجاوٹ شامل ہوتی جا رہی ہے۔ آپ شوروم پہنچے، دیکھا کہ فلاں کونے میں کیا چیز اچھی لگے گی اور بس خرید لی۔ آپ نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ یہ ’چیز‘ آرام دہ بھی ہو گی یا نہیں۔
پہلے صرف یہ شوروم درمیان میں نہیں تھے۔ کاریگر ہوتے تھے، انہیں بتا دیا اور انہوں نے مطلب کی چیز بنا دی۔ آپ کو بازو والی ڈائننگ چیئر کی خواہش ہے، وہ بنا کر دیں گے، آپ کو لگتا ہے مہمانوں کے لیے موسم کے حساب سے آرام دہ فرنیچر ہونا چاہیے، وہ آپ کو بید سے بنی ہوئی کرسی بنا کے دیں گے، آپ کو ایک تھری سیٹر کے ساتھ چار سنگل صوفے درکار ہیں، وہ تیار کریں گے، شرط صرف صبر اور تھوڑا بھاؤ تاؤ کرنے کی ہوتی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ذاتی آرام کی چیز جب بھی بازار کے لیے زیادہ مقدار میں بنے گی تو اس میں آسائش سے زیادہ آرائش کا چکر ہو گا۔ یہ کام پہلے بھی ہوتا ہے۔ وہ یاد ہے لمبے سے بازوؤں والی کرسی جو ریلوے کے ریسٹ روم میں پڑی ہوتی تھی؟ گوگل پہ سرچ کریں، لانگ آرام ایزی چیئر، شکل سامنے آ جائے گی، وہ کرسی آخر کیسے ایزی چیئر تھی؟ آپ اس پہ لیٹ سکتے تھے نہ بیٹھنے والا کوئی سین تھا، پھر بازو اتنے لمبے کہ ٹانگیں کرسی کے بازوؤں پہ ہی رکھ دیں، اور اگر رکھ دی جائیں تو صرف تصور کریں کہ ایک شخص کرسی پہ دونوں ٹانگیں پھیلائے ادھوری سی پوزیشن میں بیٹھا یا لیٹا ہوا کیسا لگے گا؟ یہ کرسیاں پورے انڈیا کے سٹیشنوں پہ تھیں اور ظاہری بات ہے ان کا ڈیزائن بھی ایک ہی مرتبہ کسی مہربان گورے نے منظور کیا ہو گا!
تو فرنیچر لیتے ہوئے یاد رکھیں کہ اسے ’افراد‘ کے لیے بنایا گیا ہو، ’خریدار‘ کے لیے نہیں۔ زندگی میں کتنی بار آپ گھر کا فرنیچر خریدتے ہیں؟ ایک یا دو بار؟ تو یہ ’باریں‘ بہرحال درست فیصلے والی ہونی چاہییں۔
سجاوٹ والا پہلو دیکھیں تب بھی، فرنیچر کا باقاعدہ ایک کردار ہوتا ہے۔ چھوٹی جگہ پہ بھاری بھرکم صوفے آخر رکھنے ہی کیوں ضروری ہیں؟ لکڑی کی آرام دہ کرسیاں نہیں بنوائی جا سکتیں؟ الگ سے ڈائننگ ٹیبل کی جگہ ایک سینٹر ٹیبل نہیں بنوائی جا سکتی جو وقت پڑنے پہ کھانے کی میز والا کام بھی دے؟ گھر میں داخل ہوتے ہی ایک ہیٹ ریک نہیں ہو سکتا جس کے بیچ میں آئینہ لگا ہو اور ایک آدھی دراز موجود ہو؟ سجاوٹ کی ہر چیز میں گولڈن رنگ ہونا کیوں ضروری ہے، ہم لوگ مغلوں کے آخری چشم و چراغ ہیں؟
راکنگ چیئر، کوٹ ہینگر، کریڈنزا، کین فرنیچر سمیت کئی ایسی چیزیں ہیں جو خود سجاوٹ کے لحاظ سے اپنی ذات میں پورا کیریکٹر ہوتی ہیں لیکن ہم ان کے بارے میں سوچیں تب کہ جب ہمیں اپنے بھاری پردوں، کشنوں سے لدے صوفوں، لیمپوں اور سنہری سجاوٹوں سے فرصت ملے۔
آخری بات یہ کہ اپنے ذرائع دیکھیں، آمدنی پہ نظر کریں اور سوچیں کہ خالی فرشی نشست رکھنے میں بھی کیا حرج ہے؟ گاؤ تکیے، ہلکا سا قالین، روئی کی توشک، چائے وغیرہ کے لیے چھوٹی سی فرشی میز، کسی بزرگ مہمان کے لیے کونے میں چار پانچ موڑھے ۔۔۔ یہ سب کچھ بھی اچھا خاصا آرام دہ ہو سکتا ہے، اگر سوچا جائے کہ ہم نے ’سجاوٹی فرنیچر‘ خریدنا ہے یا آرام کو ترجیح دینی ہے۔