سندھ طاس معاہدہ معطلی: پاکستان پر کیا اثرات پڑ سکتے ہیں؟

انڈیا کی جانب سے کیے گئے حالیہ اقدام کا کیا مطلب ہے؟ کیا انڈیا یکطرفہ طور پر اس معاہدے پر عمل درآمد روک سکتا ہے؟ کیا سندھ طاس معاہدے کی منتقلی سے پاکستان کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے؟

انڈیا کی جانب سے بدھ کو سندھ طاس معاہدے کی یکطرفہ معطلی کا اعلان کیا گیا جسے پاکستان نے جنگی اقدام کے مترادف تو قرار دیا ہے مگر سوال یہ ہے کہ انڈیا کی جانب سے اس معاہدے کی معطلی سے پاکستان پر کیا اثر پڑے گا۔

پہلگام میں سیاحوں پر حملے کے بعد انڈیا نے سندھ طاس معاہدہ معطل اور پاکستانیوں کے لیے ویزے بند کیے جس کے جواب میں پاکستان نے بھی سرحدی گزرگاہ بند اور تجارتی تعلقات منقطع کر دیے اور ان تمام اقدامات میں سندھ طاس معاہدہ ایک ایسا معاملہ جو ماہرین کے مطابق پاکستان کو سب سے زیادہ اثر انداز کر سکتا ہے۔

اسی حوالے سے انڈیا کے سیکریٹری وزارت آبی وسائل نے جمعرات کو پاکستانی ہم منصب کو لکھے گئے خط میں ’سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے‘ سے متعلق آگاہ کیا ہے۔ 

خط میں کہا گیا ہے کہ 1960 میں کیے گئے سندھ طاس معاہدے کو فوری طور پر معطل کرنے کے انڈیا کے فیصلے سے متعلق آگاہ کیا گیا ہے۔

سندھ طاس معاہدہ کیا ہے؟

1960 میں پاکستان اور انڈیا کے مابین عالمی بینک کی ثالثی میں سندھ طاس معاہدہ طے پایا جو دونوں ممالک کے درمیان بہنے والے دریاؤں کے پانی کی تقسیم کے لیے کیا گیا تھا۔ اس معاہدہ کے تحت انڈس بیسن سے ہر سال آنے والے پانی کو پاکستان اور انڈیا کے درمیان تقسیم کیا گیا۔ 

جہاں ایک جانب پاکستان کو سندھ، چناب اور جہلم کے دریاؤں کے پانی کا اختیار دیا گیا وہیں دوسری جانب انڈیا کو دریائے راوی، ستلج اور بیاس کے پانی پر اختیار حاصل ہے۔ یاد رہے پاکستان کو دیے گئے ان تین دریاؤں کے 20 فیصد پانی پر بھی انڈیا کو حق حاصل ہے۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بین الاقوامی قانون کے ماہر اور عالمی عدالت میں پاکستان کے سابق وکیل احمر بلال صوفی کے مطابق سندھ طاس معاہدہ کی معطلی بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے، ’کسی بھی ریاست کو طاقت بین الاقوامی قوانین کے مطابق دی جاتی ہے۔‘

احمر بلال نے کہا کہ چونکہ سندھ طاس معاہدے میں ترمیم دونوں ممالک کی باہمی رضامندی سے ہی ہو گا اور ’حالیہ اقدام کو act of hostility کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے, اس وجہ سے پاکستان کہہ سکے گا کہ اس کے پاس اس hostile act کا جواب دینے کے اختیارات آ گئے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کے ان اقدامات سے خطے میں  تناؤ بڑھے گا اور بین الاقوامی امن و سلامتی کو خطرہ لاحق ہو گا۔

پانی کا رخ موڑنے سے لاکھوں افراد کو پانی کی فراہمی متاثر ہو سکتی ہے: ماہر

تاہم انڈیا کی جانب سے کیے گئے حالیہ اقدام کا کیا مطلب ہے؟ کیا انڈیا یکطرفہ طور پر اس معاہدے پر عمل درآمد روک سکتا ہے؟ کیا سندھ طاس معاہدے کی منتقلی سے پاکستان کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے؟

ڈاکٹر شکیل حیات بین الاقوامی پانی کے امور کے ماہر ہیں اور واٹر ایڈ پاکستان میں ماحولیاتی تبدیلی اور پانی کے پروگرام کی سربراہی کرتے ہیں۔ 

ڈاکٹر شکیل کا کہنا ہے کہ سندھ طاس معاہدہ معطل ہونے سے لاکھوں افراد کو پینے کے پانی کا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انڈیا کے سندھ طاس معاہدے پر عملدرآمد نہ کرنے کا اعلان صرف دہلی اور لاہور کا مسئلہ نہیں، بلکہ اس سے متاثر ہونے والے پنجاب اور سندھ کے سینکڑوں رہائشی ہیں۔ ’پانی کا رخ موڑنے کا مطلب ہے کہ لاکھوں افراد کو پینے کے پانی کے حوالے سے خطرہ لاحق ہو جائے گا۔‘

انہوں نے کہا پانی کے معاہدہ سے نکلنا آسان نہیں ہے، اس کے نتائج بھی ہوتے ہیں۔ اس ضمن میں ’انڈیا کے پاس جغرافیائی طاقت ہے کیونکہ انڈس تبتین پلیٹس سے نکلتا ہے جو لداخ کے پہاڑوں اور انڈیا سے ہوتے ہوئے پاکستان میں داخل ہوتا ہے۔‘

پاکستان کے لیے دریاؤں کی معاشی اہمیت

ڈاکٹر فضلدا نبیل کلائمیٹ اینڈ واٹر گورننس کی ماہر ہیں اور لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز میں پانی کی سیاست اور ماحولیاتی تحقیق پڑھاتی ہیں۔

وہ سمجھتی ہیں کہ سندھ طاس معاہدہ معطل ہونے سے خشک موسم کے دنوں میں حالات سنگین بن سکتے ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں ڈاکٹر فضلدا نے کہا کہ پاکستان دنیا کے سب سے بڑے مربوط آبپاشی نظام، سندھ طاس آبپاشی نظام، کا گھر ہے۔ ’معاہدے کے تحت پاکستان کے لیے مختص تین مغربی دریا سندھ، جہلم اور چناب صرف آبی ذخائر نہیں ہیں جو ہماری معیشت، کھانے اور توانائی کے نظام کی جان ہیں۔‘

ڈاکٹر فضلدا کے مطابق ’دریاوں کے بہاؤ میں رکاوٹ کے تباہ کن نتائج ہو سکتے ہیں۔ پاکستان میں زراعت کا انحصار تقریبا مکمل طور پر آبپاشی پر ہے۔ یہ ہماری جی ڈی پی میں 22 سے 24 فیصد حصہ ڈالتا ہے، 37 فیصد افرادی قوت کو ملازمت دیتا ہے، اور براہ راست یا بالواسطہ طور پر 70 فیصد سے زیادہ برآمدات کا حصہ ہے۔ دریا کے بہاؤ کے نازک توازن میں سندھ طاس معاہدہ میں خلل سے پورے اقتصادی ڈھانچے کو خطرہ ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ربیع کے موسم میں گندم کی فصل کے لیے بروقت آبپاشی تک رسائی بہت ضروری ہے۔

’اگرچہ گلیشئیر پگھلنے سے قلیل مدتی ریلیف مل سکتا ہے۔ لیکن خشک موسم سنگین خطرات لاتا ہے جو مسلسل دباؤ میں سنگین بن سکتے ہیں۔‘

پاکستان کی پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت 30 روز ہے جبکہ انڈیا کی 120 روز ہے۔ 

سیلاب کا خطرہ

آبی امور کے ماہر نصیر میمن کہتے ہیں کہ انڈیا بغیر اطلاع پانی چھوڑ سکتا ہے جو بالخصوص دریائے ستلج میں ممکنہ طور پر سیلاب کا باعث بن سکتا ہے۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ سندھ طاس معاہدہ دونوں ممالک کے لیے انتہائی اہم ہے۔ ’پاکستان ابھی تک آبی وسائل پر کسی فوری سنگین اثرات کا شکار نہیں ہے کیونکہ انڈیا کے پاس پاکستان کے مغربی دریاؤں پر پانی ذخیرہ کرنے/ موڑنے کا بنیادی انفراسٹرکچر نہیں ہے۔‘

نصیر میمن کے مطابق درمیانی اور طویل مدت میں اگر یہی صورت حال برقرار رہی تو سندھ، جہلم اور چناب سے پاکستان کا بہاؤ منفی طور پر متاثر ہو سکتا ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ پاکستان کو انڈیا کی جانب سے پانی کے بہاؤ کا ڈیٹا شیئر کرنے سے محروم کیا جا سکتا ہے۔ ’پاکستان کو آنے والے مون سون میں اس وقت الرٹ رہنے کی ضرورت ہے جب انڈیا مشرقی دریاؤں کے اپنے اضافی بہاؤ کو بغیر اطلاع کے چھوڑ سکتا ہے اور بالخصوص دریائے ستلج میں ممکنہ طور پر سیلاب کا باعث بن سکتا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان