قلت آب، متغیر موسم، سندھ میں آم اور کیلے کی فصل کو نقصان: کاشت کار

کاشت کاروں کے مطابق اس سال آم کی فصل میں 53 فیصد تک کم پیداوار کے ساتھ آم کی ایکسپورٹ بھی شدید متاثر ہونے کا امکان ہے، جب کہ زیادہ پانی پر اگنے والے کیلے کو ’ناقابل تلافی‘ نقصان پہنچا ہے۔

سات جون 2016 کی تصویر میں کراچی کے ایک بازار میں ایک شخص آم خرید رہا ہے (اے ایف پی)

پاکستان میں اوسط سے غیر معمولی طور پر کم بارشوں کے بعد دریائے سندھ میں پانی کی قلت کا ایک صدی کا ریکارڈ ٹوٹنے اور متغیر موسم کے باعث سندھ میں آم اور کیلے کی فصلوں کو شدید نقصان پہنچا ہے۔

کاشت کاروں کے مطابق اس سال آم کی فصل میں 53 فیصد تک کم پیداوار کے ساتھ آم کی برآمد بھی شدید متاثر ہونے کا امکان ہے، جب کہ زیادہ پانی پر اگنے والے کیلے کو ’ناقابل تلافی‘ نقصان پہنچا ہے۔

زرعی سائنس دان، کئی کتابوں کے مصنف اور جنیاتی تبدیلی سے پھلوں کی متعدد نئی اقسام متعارف کروانے والے ماہر مرحوم ایم ایچ پنہور کے نام سے منسوب ٹنڈوجام کی کھیسانہ موری پر واقع ’ایم ایچ پنہور فروٹ فارم‘ چلانے والے نوجوان کاشت کار شاہ زیب پنہور کے مطابق پانی کی قلت اور متغیر موسم کے باعث امسال آم کی پیداوار میں 30 سے 35 فیصد کمی کا امکان ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے شاہ زیب پنہور نے کہا کہ آم کو پکنے کے لیے گرم موسم درکار ہے اور موسم میں یکسر تبدیلی سے اس پھل کی پیداوار متاثر ہوتی ہے۔

بقول شاہ زیب پنہور: ’ایک تو پانی کی قلت کے باعث آم کو نقصان پہنچا اور اس کے علاوہ بدلتے موسم نے بھی آم پر منفی اثرات ڈالے۔ جب پھل لگنا شروع ہوا تو دن کی اوقات میں شدید گرمی اور رات کو ٹھنڈ دیکھی گئی جس کے باعث پھل کی نشو نما پر منفی اثر ہوا۔

’اس سال آم کے سیزن کے شروعات سے جتنا پھول آنا شروع ہوا تھا وہ اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔ ہم نے سوچا کہ اگر اتنی زیادہ پیداوار ہوئی تو اس سال آم کی قیمت اچھی نہیں ملے گی۔ مگر جیسے ہی پھل لگنا شروع ہوا تو تیزی سے گرنے لگا۔

’اس کے علاوہ آم پر تھرپس کے حملے کے باعث بھی کافی نقصان ہوا۔ تھرپس کے باعث پھل میں داغ آجاتا ہے اور ایکسپورٹ نہیں کیا جا سکتا۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’ان تمام وجوہات کی بنا پر اس سال متوقع ہے کہ آم کی پیداوار میں 30 سے 35 فیصد تک کمی واقع ہو گی۔

بقول شاہ زیب پنہور سندھڑی کے مقابلے میں کیٹ مینگو سائیز میں چھوٹا ہوتا ہے جب کہ پیداوار سندھڑی سے زیادہ دیتا ہے اور ان کے فارم پر اگنے والا کیٹ مینگو کا 80 فیصد ایکسپورٹ کیا جاتا ہے۔

’مگر اس سال ایکسپورٹ میں شدید کمی کا امکان ہے۔‘

عمرکوٹ میں 600 ایکڑ پر محیط آموں کے باغات والے ’مورجھانگو ایگریکلچر اینڈ کیٹل فارم‘ کے مالک میر امان اللہ تالپور کے مطابق آم کی سیزن میں باغات کو ہر 21 دن بعد پانی دینا لازمی ہوتا ہے ورنہ پیداوار میں کمی ہو جاتی ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے میر امان اللہ تالپور نے کہا: ’اس سال دریائے سندھ میں کمی کے باعث آم کی سیزن کے آغاز سے ہی پانی نہیں ملا، اس لیے آم کے پھول مطلوبہ مقدار میں نہ کھل سکے، جس سے پیداوار کو شدید نقصان پہنچے گا۔‘

میر امان اللہ تالپور کے مطابق سندھ میں آم بڑے پیمانے پر لگے ہوئے ہیں، مگر حیدرآباد، مٹیاری، ٹنڈوجام، ٹنڈوالہیار سمیت کچھ علاقوں میں زیر زمین پانی میٹھا ہے، وہاں دریا میں پانی کی قلت کے باعث پانی ملنے پر کاشت کار ٹیوب ویل سے اپنے باغات کو پانی دیتے ہیں۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’مگر میرورپورخاص ڈویژن کے عمرکوٹ اور میروپورخاص میں زیر زمین پانی کھارا ہے اور فصلوں اور باغات کو پانی کا واحد ذریعہ دریا کا پانی ہے، مگر اس وقت پانی نہ ہونے کی وجہ سے ان اضلاع میں آم سمیت مختلف فصلوں کو نقصان ہو رہا ہے۔

پاکستانی سندھڑی آم دنیا بھر میں شہرت رکھتا ہے اور میرپورخاص ڈویژن سندھڑی آم کا مرکز سمجھا جاتا ہے۔ یورپ، مشرق وسطیٰ اور دیگر ممالک کو سندھڑی ایکسپورٹ کرنے والا میروپورخاص کا ’کاچھیلو فروٹ فارم‘ مشہور ہے۔

ضلع میرپورخاص کے کوٹ غلام محمد میں واقع کاچھیلو فارم کے 700 ایکڑ پر محیط آم کے باغات چلانے والے معروف کاشت کار فیصل کاچھیلو کے مطابق وقت پر پانی نہ ملنے کے باعث آم کی سائیز چھوٹا رہ گیا ہے اور پیداوارمیں بھی واضح کمی کا امکان ہے۔

انڈیپینڈٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے فیصل کاچھیلو نے کہا: ’سندھ میں عام طور پر فلڈ ایریگیشن کا رواج ہے۔ مگر اس وقت پانی کی کمی کے باعث پوری سیزن میں صرف دو بار ہی پانی ملا ہے۔ اس دوران باغات کو پانی دینے کے لیے نالیاں بنائی گئیں اور ہر درخت کے نیچے گڑھا کھودا گیا، تاکہ پانی کم استعمال ہو۔

’ایسی صورتحال میں اس سال آم کی ایکسپورٹ پر منفی اثرات ہوں گے۔‘

پانی کی شدید قلت کے باعث نہ صرف آم بلکہ بہت زیادہ پانی لینے والے کیلے کے فصل کو بھی نقصان پہنچا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سندھ ایگریکلچر یونیورسٹی ٹنڈوجام کے ڈپارٹمنٹ آف سوئل سائنسز کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر ایس ابراہیم ابڑو کے مطابق پاکستان میں کیلے کی فصل کی 90 فیصد کاشت سندھ میں کی جاتی ہے۔ اس لیے سندھ کو ’گارڈن آف بینانا‘ بھی کہا جاتا ہے۔ سندھ میں کیلے کی فصل ایک لاکھ 30 ہزار ایکڑ پر کاشت کی جاتی ہے۔

کاچھیلو فارم پر آم کے باغات کے ساتھ کیلے کی فصل بھی بڑے پیمانے پر لگائی جاتی ہے۔

فیصل کاچھیلو کے مطابق ان کے باغات اور کیلے کی فسل کی کاشت پُران نہر کے پانی پر کی جاتی ہے۔ پُران نہر جمڑاؤ کینال سے نکلتی ہے اور 35 میل لمبی نہر ہے، جس سے سے چھوٹی سائیز 136 واٹر کورسز نکلتے ہیں۔

بقول فیصل کاچھیلو: ’پُران نہر پر 20 میل کے بعد پانی نہیں آرہا، جس کے باعث کیلے کی کھڑی فصل سوکھ گئی۔ کیلے کی فصل ٹھیکداروں کو دی جاتی ہے، مگر پانی کی قلت کے باعث کیلے سوکھنے کے باعث ٹھیکیدار اپنے ٹھیکے آدھے میں چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔

’صرف مجھے کیلے کی فصل سوکھنے سے اب تک سات کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے۔‘

آم کی برآمد کی غیر یقینی صورت حال

آم اور دیگر پھل و سبزیوں کی مقامی سطح پر فروخت اور برآمد کے کاروبار سے جڑے کراچی کے سٹارٹ اپ ’فریش اینڈ روشن‘ کی بانی عفیفہ خالد کے مطابق پانی کی قلت کے باعث آم کی کم فصل، ابتر کوالٹی اور اچھا ذائقہ نہ ہونے کے باعث اس سال آم کی ایکسپورٹ کی صورتحال غیر یقینی ہے۔

نوجوان انٹرپرینیور عفیفہ خالد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ سندھ میں پانی کی قلت کے آم کی فصل پر بڑے پیمانے پر کیڑوں اور تھرپس کے حملے کے بعد ایکسپورٹ کے لیے بہتر کوالٹی اور مطلوبہ مقدار میں فصل لانا ممکن نہیں لگ رہا۔

عفیفہ خالد کے مطابق: پانی کی کمی کے باعث پگل کا سائز چھوٹا ہو جاتا ہے اور کیڑوں کے حملے کے باعث پھل داغدار اور اس کا ذائقہ بھی اچھا نہیں رہتا، اس لیے ایکسپورٹ نہیں کیا جا سکتا۔

’اس لیے اب تک ہم نے ایکسپورٹ کے لیے تاحال کوئی منصوبہ بندی نہیں کی، شاید اس سال آم مقامی مارکیٹ میں فروخت کریں، مگر تاحال کچھ نہیں کہا جا سکتا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت