مظفر گڑھ کا خالص کھویا جس میں ’قدرتی مٹھاس ہوتی ہے‘

یہ شوگر فری کھویا اب سعودی عرب، دبئی اور دیگر ممالک میں تحفے اور سوغات کے طور پر بھیجا جانے لگا ہے۔

دریائے سندھ کے کنارے واقع ضلع مظفرگڑھ کی یونین کونسل گبر آرائیں میں خالص دیسی طریقے سے تیار ہونے والا پھیکا کھویا نہ صرف مقامی سطح پر مقبول ہے بلکہ بیرون ملک بھی بطور تحفہ بھیجا جاتا ہے۔

یہ شوگر فری کھویا اب سعودی عرب، دبئی اور دیگر ممالک میں تحفے اور سوغات کے طور پر بھیجا جانے لگا ہے۔

اس علاقے کے کاریگر کئی نسلوں سے اس کھوئے کو بنانے کے روایتی فن کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔

اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے محمد کسور نے بتایا: ’یہ کام سب سے پہلے میرے دادا نے 1968 میں شروع کیا۔ اُس کے بعد والد صاحب نے سنبھالا اور اب میں خود تیسری نسل سے تعلق رکھتا ہوں۔ ہماری دکان دریائے سندھ کے کنارے پتن آرائیں کے مقام پر واقع ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ یہ کھویا خاص طور پر کچے کے جنگلات میں چرنے والی بھینسوں کے دودھ سے تیار کیا جاتا ہے، جو قدرتی خوراک پر پلتی ہیں۔

’یہی وجہ ہے کہ اس دودھ کی کوالٹی بہتر اور خالص ہوتی ہے۔‘

 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’ہم اس میں کوئی مصنوعی چینی یا شکر نہیں ڈالتے۔ دودھ میں خود ایک قدرتی مٹھاس ہوتی ہے، جو کھوئے میں باقی رہتی ہے۔ اسی لیے یہ نہ صرف ذائقے میں بہتر ہوتا ہے بلکہ چینی شامل نہ ہونے کی وجہ سے کئی دن تک محفوظ بھی رہتا ہے۔‘

محمد کسور کے مطابق: ’عام دنوں میں ہم پانچ سے چھ من دودھ استعمال کرتے ہیں، لیکن گرمیوں میں چونکہ بھینسوں کی دودھ دینے کی صلاحیت کم ہو جاتی ہے اور موسم کی شدت کے باعث کھوئے کے خراب ہونے کا خدشہ بھی بڑھ جاتا ہے، اس لیے ان دنوں روزانہ صرف دو سے تین من دودھ سے کھویا تیار کرتے ہیں۔‘

ان کے مطابق کھویا خالص ہوتا ہے اور ایک کلو کھوئے کی قیمت عام طور پر ہزار سے 1500 روپے تک ہوتی ہے۔

’جب کہ مانگ کا یہ عالم ہے کہ روزانہ دوپہر تین بجے تک سارا سامان فروخت ہو جاتا ہے۔‘

ملک اللہ دتہ بوسن، جو علی پور کے زمیندار  ہیں، انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتاتے ہیں کہ ’ اکثر اپنے عزیزوں اور دوستوں کے لیے یہاں سے کھویا خرید کر انہیں بھجواتا ہوں۔ یہ ہمارے علاقے کی پہچان ہے اور ایک بہترین سوغات بھی ہے۔‘

محمد کسور کا کہنا ہے کہ ان کے بچے بھی سکول سے واپس آ کر اس کام میں دلچسپی لیتے ہیں اور یہ ہنر چوتھی نسل کو منتقل ہو رہا ہے۔

ان کے بقول: ’یہ روزگار، روایت اور عزت — تینوں چیزیں ہمیں اس ایک کام سے حاصل ہوتی ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا