کیا یہ زندگی ہم جی رہے ہیں یا ہمارے موبائل؟

موبائل کو ایک طرف رکھ کر ہمیں خود سے پوچھنا ہوگا کہ کیا واقعی ہمیں ہر چیز کو کیمرے میں اتارنا ضروری ہے؟ یا کچھ لمحات کو جینا، محسوس کرنا، اور دل میں محفوظ رکھنا زیادہ اہم ہے؟

راولپنڈی میں چند مزدور 13 نومبر 2022 کو پاکستان اور انگلینڈ درمیان کرکٹ ورلڈ کپ کے فائنل میچ کو دیکھنے کے لیے ایک موبائل سے جڑے ہوئے ہیں (فائل فوٹو/ اے ایف پی)

دیکھتے ہی دیکھتے ہماری دنیا کنچے، گلی کی کرکٹ، سہیلیوں کی دعوت، چائے کے ڈھابوں سے ہوتی ہوئی ایک سکرین میں سمٹ گئی ہے۔ ہم ایسی دنیا میں جی رہے ہیں جہاں زندگی کو جینے سے زیادہ ’ریکارڈ‘ کیا جا رہا ہے۔

اب ہر لمحہ چاہے وہ سادہ سا ناشتہ ہو یا آپ کے بچے کی پہلی مسکراہٹ، صرف اسی وقت اہم ہے جب اسے دنیا کے ساتھ شیئر کیا جائے۔

یہ شیئر کرنے کی کم بختی بھی عجیب ہے، کچھ اپنی زندگی کی جھوٹی تصویر پیش کر رہے ہیں اور اپنے فالوورز، دوستوں اور رشتہ داروں کو یہ دکھا رہے ہیں کہ وہ کتنے خوش حال ہیں۔

کچھ نے اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ شاندار تعلق کی تصاویر لگانے کا وطیرہ اپنا رکھا ہے چاہے اصل میں جائیداد کی تقسیم کے جھگڑے چل رہے ہوں۔ کچھ نے کتاب پکڑ کر دو چار تصاویر لگانی ہیں اور چند ایک فلسفیانہ تبصروں سے خود کو ارسطو ثابت کرنا ہے، اور یہ سب کچھ شیئر کرنے کے نام پہ ہو رہا ہے۔

گھبرائیں نہیں آپ اکیلے نہیں، اس فہرست میں خود میں بھی شامل ہوں۔

میں حال ہی میں روم گئی۔ ایک خوابوں جیسا شہر، تاریخ اور حسن سے بھرپور۔ مگر وہاں کے چپے چپے کی ویڈیوز میرے پاس ہونے کے باوجود، لگتا ہے جیسے میں نے کچھ نہیں دیکھا۔

تریوی فاؤنٹین کی خوبصورتی تو انسانوں کے ہجوم میں کہیں کھو گئی تھی۔ سینکڑوں لوگ، ایک دوسرے سے آگے بڑھ کر، صرف ایک تصویر کی تلاش میں تھے۔

یہی تجربہ استنبول میں ہوا۔ اس شہر کو میں نے پہلے یوٹیوب پر دیکھا، پھر انسٹاگرام پر، اور آخرکار اپنی آنکھوں سے۔ مگر دیکھنے کا زاویہ وہی رہا جو سوشل میڈیا نے دیا۔

میں نے مارک وینز جیسے مشہور فوڈ وی لاگر کی بتائی گئی جگہوں سے کھانا کھایا، واقعی وہ ذائقہ دار کھانے تھے۔ لیکن کیا یہ میرا اپنا تجربہ تھا؟ یا بس کسی اور کی ہدایت پر کیا گیا روبوٹک دورہ؟

سوال یہ ہے کہ جب ہم کسی جگہ کو اپنی نگاہ سے نہیں دیکھتے، اپنی حس سے نہیں جیتے، تو کیا ہم وہاں واقعی گئے بھی ہوتے ہیں؟ اپنے فون کی گیلری کھول کر دیکھیں۔ وہاں وہ سینکڑوں تصاویر ہیں جن میں کھانا تو ہے، مگر ذائقہ کیا تھا یہ یاد نہیں۔

بوندا باندی کے درمیان دھوپ نکلی تو قوس قزح بننے کی ویڈیو موجود ہے، لیکن وہ منظر آنکھوں نے کب دیکھا؟ وہ تو کیمرے کے لینز کی نظر ہوگیا تھا۔

سامنے عابدہ پروین نے تان لگائی ہے، ماحول میں سُروں کی خوشبو بکھری ہے، لیکن نہیں بھاڑ میں گئی سُروں کی خوشبو، ہمارے ہاتھ میں موبائل ہے اور ہم تصاویر لینے اور ریکارڈ کرنے پہ تُلے ہیں۔

وہ شاعری کا جادو، سُروں کی خوشبو میں جھومنے کا لمحہ سب موبائل کا اینگل درست کرنے میں کہیں کھو گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وہ لمحات جو کبھی ہم اپنے پانچوں حواسوں کے ساتھ چکھتے تھے اب موبائل کی عینک کے ذریعے قید ہوتے ہیں۔ ان تصاویر اور وڈیوز لینے کی مصیبت میں ایک یہ بھی اضافہ کرلیں کہ کچھ بھی اپنے اصل کی طرح نہیں ہوتا۔

میں نے یہاں ناروے کے ایک علاقے سے گزرتے ہوئے ایسی جھیل دیکھی جس میں جامنی، لال اور گلابی رنگوں کے ساتھ سورج کی کرنیں پانی پہ پھیل رہی تھیں، سورج دو اونچے پہاڑوں کی اوٹ سے نیچے اتر رہا تھا، جھیل کا پانی ساکت تھا اور اس نظارے کی وسعت اتنی تھی کہ وہ پہاڑ کم از کم ساٹھ ستر کلومیٹر دور تھے۔

میں نے ایپل اور گوگل کے دو جدید ترین موبائل فونز سے اس منظر کی تصاویر لیں، درجنوں ویڈیوز بھی بنائیں مگر مجال ہے کہ اس اصل منظر کی خوبصورتی کا ایک فیصد بھی ان موبائل فونز کے قابو میں آسکا ہو۔

موبائل فون اصل دکھاتے ہی کہاں ہیں!

زندگی کے نشیب و فراز، لنڈے کے کپڑے، پھٹی بیڈ شیٹ، سٹیل کے گلاس، ادھڑا صوفہ، گھر کی دیوار سے اترتی رنگ کی  پپڑی، ٹوٹے گملے، زنگ آلود مرکزی دروازے، سودا سلف سے پھیلا ہوا باورچی خانہ، چہرے کی جھریاں، ہونٹوں پہ پھیلتی لپ سٹک، بکھرا کاجل سب کچھ  فلٹر ہو رہا ہے، ہر چیز پرفیکٹ دکھائی جا رہی ہے۔

یہ تحریر صرف سمارٹ فون سے پہلے کے دور کی پرانی یادوں کے بارے میں نہیں ہے۔ یہ اس توجہ اور خوشی کے بارے میں ہے جو ہم ہر چھوٹی سے چھوٹی تفصیل کو دیتے تھے۔

شہر کے چوک میں لوگوں کو دیکھتے ہوئے چائے پینے کی خوشی، خریداری کرنے جائیں ڈھابے سے چھولے کی چاٹ یا حلیم کی پلیٹ کھانے کی خوشی، ایسی خوشیوں کو موبائل فون نگل گیا۔

ہم نے جینے سے زیادہ لمحے قید کرنے کی مشق شروع کر دی۔ وہ بھی صرف اپنے لیے نہیں، بلکہ ان سوشل میڈیا ناظرین کے لیے جنہیں خود اپنے موبائل میں بھری پکچر گیلری سے فرصت نہیں۔

تصاویر لینے کا فرض ہم سب ایسے پورا کر رہے ہیں جیسے لمحہ گزارنا تب ہی معنی رکھے گا جب وہ سوشل میڈیا فالورز لائکس دیں گے سُرخ دل کے نشان بھیجیں گے۔

موبائل کو ایک طرف رکھ کر ہمیں خود سے پوچھنا ہوگا کہ کیا واقعی ہمیں ہر چیز کو کیمرے میں اتارنا ضروری ہے؟ یا کچھ لمحات کو جینا، محسوس کرنا، اور دل میں محفوظ رکھنا زیادہ اہم ہے؟

شاید وقت آ گیا ہے کہ لمحے اور یادیں کیمرے میں قید کرنے کے بجائے انہیں آزاد کریں۔ ہم اپنی نگاہوں کو خودمختار بنائیں، جو چاہیں دیکھیں، اپنے زبان کو ذائقے چکھنے کا موقع دیں۔ اس لمحے کو جینا سیکھیں۔ ہر منظر تصویر کے لیے نہیں ہوتا اور ہر تصویر سوشل میڈیا پہ ڈالنے کے لیے نہیں ہوتی۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر