پہلگام حملہ: پاکستان انڈیا تعلقات کی ایک اور پستی

دونوں ممالک کے درمیان ثقافتی اور تاریخی ہم آہنگی یہ تقاضا کرتی ہے کہ باہمی مفاہمت اور تعاون کے ذریعے آگے بڑھا جائے۔

25 اپریل 2025 کو واہگہ بارڈر پوسٹ پر انڈیا اور پاکستان کے سرحدی دروازوں پر انڈین بارڈر سکیورٹی فورس اور پاکستانی رینجرز کے اہلکار بیٹنگ ریٹریٹ کی تقریب میں حصہ لے رہے ہیں (اے ایف پی)

منگل کو پہلگام میں ہونے والے حملوں کے بعد انڈین حکومت نے پاکستان کے ساتھ تعلقات مزید محدود کرنے اور سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

یہ فیصلے صورت حال پر ایک جذباتی ردعمل کی عکاسی کرتے ہیں اور عوامی غصے کا رخ پاکستان کی طرف موڑنے کی کوشش ہیں۔ اگر اس طرز پر عمل جاری رہا تو یہ انڈیا-پاکستان تعلقات میں ایک اور بڑی کمی کی علامت ہو گا۔
پاکستان کی قومی سلامتی کمیٹی نے بھی اسی شدت سے ردعمل دیتے ہوئے انڈیا کے ساتھ تمام معاہدے معطل کر دیے ہیں اور تیسرے ممالک کے ذریعے ہونے والی تجارت بھی وقتی طور پر روک دی ہے۔ انڈین فضائی پروازیں بھی بند کر دی گئی ہیں۔

مختصراً، پاکستان اور انڈیا اب ایک آخری لڑائی کی تیاری کر رہے ہیں۔ اگرچہ اس بار شدت بہت زیادہ ہے، مگر ہم اس قسم کی صورت حال پہلے بھی دیکھ چکے ہیں۔

انڈیا، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق کشمیری عوام کے لیے انصاف کے پاکستانی مطالبے سے توجہ ہٹانے کے لیے، پاکستان پر دہشتگردی کے الزامات لگا رہا ہے۔

دہلی کی حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) حکومت کی پالیسی سیاسی/نظریاتی ہے، جس کا مقصد ’اکھنڈ بھارت‘ کا حصول ہے، جس کا مطلب پاکستان کا خاتمہ ہے۔ گذشتہ دو دہائیوں میں اس نے جنوبی ایشیا میں اپنی بالادستی قائم کرنے کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں۔

ان پالیسیوں کے پیچھے کارفرما ناپختگی پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اور انڈیا بڑے ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ممالک ہیں۔ دونوں پر لازم ہے کہ وہ بالغ نظری سے کام لیں۔

ایک آخری لڑائی کا مطلب دونوں ریاستوں کی تباہی اور دنیا کے لیے ایٹمی سردی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم تباہی کے کنارے سے پیچھے ہٹیں۔ انڈیا کی جانب سے پاکستان کے خلاف کسی بھی عسکری کارروائی کا جواب دیا جائے گا۔ کوئی نہیں جیتے گا۔

پاکستان نے حالیہ برسوں میں کہیں زیادہ دہشت گرد حملوں کا سامنا کیا ہے۔ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) سمیت دیگر جنگجو اور علیحدگی پسند قوتیں پاکستان کے خلاف سرگرم کی گئی ہیں۔ یہ راز کی بات نہیں کہ بلوچستان میں بغاوت کی حمایت انڈیا کرتا ہے۔ انڈین قومی سلامتی کے مشیر کے بیانات اس پر موجود ہیں۔

لائن آف کنٹرول پر 2021 میں ہونے والی جنگ بندی کا احترام کیا گیا ہے۔ تمام دو طرفہ معاہدوں کو معطل کرنے کے فیصلے کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی اب قائم نہ رہے۔

انڈیا نے ایک دہائی سے پاکستان کو نظرانداز کیا ہے۔ یہ سمجھتے ہوئے کہ پاکستان کمزور ہے اور سکیورٹی، معیشت اور سیاست میں الجھا ہوا ہے۔ انڈیا نے اب مزید انتشار پیدا کرنے کا عمل شروع کر دیا ہے — ایک آخری لڑائی۔ تاہم، انڈیا کو اندازہ ہو جائے گا کہ پاکستانی عوام ہر مشکل کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سوال یہ ہے کہ کیا ایسا کوئی طریقہ سوچا جا سکتا ہے جس سے دونوں ممالک کشیدگی کو کم کرنے کا عمل شروع کریں؟

سفارتی طور پر، بیرونی کردار ایک عامل ہو سکتا ہے۔ ماضی میں امریکہ اور برطانیہ نے کشیدگی کم کرنے میں کردار ادا کیا ہے۔ اب، جب کہ صدر ٹرمپ عالمی سطح پر بڑے منصوبوں میں مصروف ہیں، سوال یہ ہے کہ کیا وہ اس میں مداخلت کا ارادہ رکھتے ہیں؟

قانونی طور پر، سندھ طاس معاہدہ یک طرفہ طور پر ختم نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان عالمی بنک اور شاید اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے رجوع کر سکتا ہے۔

ایک دو طرفہ، پاکستان انڈیا کشیدگی کم کرنے کا عمل ہی سب سے موزوں راستہ ہے۔ اس سیاق میں سب سے نمایاں اقدام قیادت کی سطح پر رابطہ ہو سکتا ہے۔ شاید وزیر اعظم شہباز شریف کا نئی دہلی کا دورہ کرنے کا فیصلہ۔

ساتھ ہی جلد ایک خفیہ رابطہ بھی قائم کرنا ہو گا۔ پہلگام کے حوالے سے دونوں ممالک کے ملٹری انٹیلی جنس حکام کی ملاقات مفید ہو گی۔ فوجی سطح پر رابطے، خاص طور پر فوجی سربراہان کے درمیان، جاری رکھے جائیں۔

پاکستان اور انڈیا کے درمیان ایک کلاسیکی بحران کے تمام مراحل سے گزرتے ہوئے، بالآخر حل ایک دو طرفہ بات چیت سے ہی نکلے گا۔

پاکستان اور انڈیا کو یہ حقیقت تسلیم کرنا ہو گی کہ وہ ہمیشہ ہمسایہ رہیں گے۔ اچھے تعلقات نہ صرف امن کے مفاد میں ہیں، بلکہ دونوں کو اقتصادی ترقی کا موقع بھی فراہم کرتے ہیں۔

دونوں ممالک کے درمیان ثقافتی اور تاریخی ہم آہنگی یہ تقاضا کرتی ہے کہ وہ باہمی مفاہمت اور تعاون کے ذریعے آگے بڑھیں۔

بشکریہ عرب نیوز

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

سلمان بشیر پاکستان کے  خارجہ سیکریٹری اور انڈیا کے لیے ہائی کمشنر رہ چکے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا