اسرائیلی علاقوں میں رہنے والے عربوں نے پہلی مرتبہ ایک متحدہ پلیٹ فارم ’جائنٹ لسٹ‘ پر حالیہ اسرائیلی انتخابات میں بھرپور حصہ لیا اور تیسری بڑی سیاسی طاقت کے طور پر ابھر کر سامنے آئے۔ تقریباً 60 فیصد عرب ووٹروں نے اس انتخاب میں اپنی رائے کا اظہار کیا۔
انتخابات میں اس فعال شمولیت سے اب یہ گروپ اس پوزیشن میں آ گیا ہے کہ اگر دو بڑی سیاسی جماعتوں بلیو اینڈ وائٹ اور لیکوڈ میں سیاسی اتحاد نہ ہو سکا تو اگلی حکومت کے قیام میں جائنٹ لسٹ کا ایک اہم کردار ہو گا۔
چونکہ اسرائیلی عرب موجودہ وزیراعظم نتن یاہو کے 13 سالہ ظالمانہ اقتدار کا ہر حال میں خاتمہ چاہتے ہیں اس لیے جائنٹ لسٹ نے یکطرفہ طور پر کسی بھی حکومت، جس میں نتن یاہو شامل نہ ہو، کی حمایت کا فیصلہ کیا ہے۔ چونکہ نتن یاہو کے حریف بنیی گینز نے بھی اپنے وقت میں آرمی چیف کا عہدہ سنبھالتے ہی عربوں پر بے تحاشہ ظلم ڈھانے شروع کر دیئے تھے اور غزہ کو تباہی کے دھانے تک پہنچا دیا تھا، اس لیے جائنٹ لسٹ کے اس فیصلے پر اسرائیلی عربوں میں اختلاف بھی پایا جاتا ہے۔
اسی بارے میں: عرب اتحاد جائنٹ لسٹ کیا ہے اور اس میں کون سی جماعتیں شامل ہیں؟
لیکن اسرائیل کے عرب ووٹرز کی اس انتخاب میں 12 فیصد اضافے کی بڑی وجہ ان کی نتن یاہو سے نجات کی خواہش تھی۔ اس لیے گینز کی یکطرفہ حمایت کو اس پس منظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ایک حالیہ سروے کے مطابق اسرائیلی عربوں کی ایک بڑی تعداد چاہتی ہے کہ جوائنٹ لسٹ مخلوط حکومت میں شامل ہو اور وزارتیں بھی سنبھالے تا کہ ان کے مسائل حل کرنے میں کچھ پیش رفت ہو۔ اسی سروے کے مطابق اسرائیلی یہودی، عربوں کی حکومت میں شمولیت کے مسئلے پر برابر تقسیم ہیں۔
اسرائیلی عربوں کے اس انتخاب میں شمولیت میں اضافے کی ایک وجہ جائنٹ لسٹ کے نوجوان، متحرک اور پراثر رہنما ایمن اودے بھی ہیں۔ یہ ایک عملی، مؤثر اور دیانت دار شخص کے طور پر جانے جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اسرائیل میں سب مذاہب کے رہنے والوں کے لیے گنجائش ہے۔ ایمن سمجھتے ہیں کہ گینز برے ہیں لیکن وہ نتن یاہو کو بدتر سمجھتے ہیں۔ ان کا گینز کا ساتھ دینے کی ایک بڑی وجہ نتن یاہو کے مغربی کنارے اور وادی اردن کو اسرائیل میں شامل کرنے کے منصوبے کو روکنا ہے۔ اس لیے ان کے خیال میں موجودہ صورت حال کو جاری رہنے دینا نتن یاہوکے غاصبانہ منصوبے سے بہتر ہے۔
ایمن کی یہ بہت بڑی کامیابی تھی کہ وہ عرب ووٹروں کی ایک بڑی تعداد کو پولنگ سٹیشن پر لانے میں کامیاب ہوئے۔ اس جمہوری عمل میں شرکت سے یہ بھی واضح ہوگیا ہے کہ اسرائیل عرب یہ سمجھ گئے ہیں کہ اسرائیل ایک حقیقت ہے اور اس حقیقت کے ساتھ سمجھوتا کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی اسرائیلی نظام میں سے عربوں کی سماجی اور معاشی بہتری حاصل کرنے کے لیے اس میں شمولیت لازم ہے۔
اسی لیے کثیر تعداد میں بین الاقوامی مبصر اس انتخاب کو اسرائیلی عربوں کی بہار کی ابتدا قرار دے رہے ہیں۔ اسرائیلی اور دائیں بازو کے حلقے اس عرب بیداری کو نتن یاہو کی غلطیوں سے جوڑ رہے ہیں اور اسے نتن یاہو کی منفی میراث گردان رہے ہیں۔ اگرچہ یہ امکان نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ مقامی سیاسی دباؤ اور مصلحتوں کے باعث گینز جائنٹ لسٹ کو اپنی مخلوط حکومت میں شامل کرنے کی بجائے نتن یاہو کی لیکوڈ پارٹی کے ساتھ قومی حکومت بنا لیں لیکن اس کے باوجود اسرائیلی تاریخ میں پہلی دفعہ ایک عرب پارٹی پارلیمان میں اپوزیشن لیڈر کے طور پر ابھر سکتی ہے اور مستقبل میں بائیں بازو کی پارٹیوں کے ساتھ مل کر حکومت سازی میں ایک اہم کردار بھی ادا کر سکتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
گو اسرائیلی عرب نتن یاہو کے جانے پر خوش تو ہوں گے لیکن انہیں گینز پر زیادہ اعتماد سے گریز کرنا چاہیے۔ گینز میں وہ پوری صلاحیت اور رجحان موجود ہے جو کہ اسے نتن یاہو پلس بننے میں مدد دے سکتا ہے۔ گینز نے 2014 میں غزہ میں تباہ کن کارروائیاں کیں اور پوری پٹی کا محاصرہ کر کے فلسطینیوں کو نہ صرف غذائی قلت سے دوچار کیا بلکہ صحت کے اداروں اور دوسرے معاشرتی اور معاشی ڈھانچوں کو بھی تباہ کرنے سے گریز نہیں کیا۔
گینز کے جنگی جرائم پوری دنیا پر آشکار ہیں۔ ان کے فلسطینیوں کے خلاف نفرت انگیز خیالات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ شاید ہی جائنٹ لسٹ کے ساتھ اتحاد کریں۔ گینز نے کئی دفعہ کہا ہے کہ وہ مغربی کنارے میں قائم غیر قانونی آبادیوں کو ختم کرنے کی بجائے ان میں اضافہ کریں گے اور ساتھ ساتھ انھوں نے نتن یاہو کے وادی اردن پر قبضہ کرنے کے منصوبے کو بھی اپنانے کا عندیہ دیا ہے۔
اس لیے غالب امکان ہے کہ گینز، نتن یاہو کی پارٹی اور دائیں بازو کے انتہا پسندوں کے ساتھ مل کر اگلی حکومت بنائیں گے اور شاید نتن یاہو سے زیادہ متشدد پالیسی اپنائیں گے۔
اگر یہ وسیع تر قومی حکومت بن جاتی ہے تو یہ گینز حکومت کو فلسطینیوں اور غزہ کے خلاف زیادہ جارحانہ پالیسی اپنانے کی کھلی اجازت ہوگی۔ گینز ماضی میں نتن یاہو کو غزہ میں انتہائی اقدام نہ اٹھانے پر سخت تنقید کا نشانہ بناچکے ہیں۔ نئی حکومت میں دوسری پارٹیوں کی شمولیت سے گینز زیادہ دلیر ہو جائیں گے اور غزہ اور دوسرے فلسطینی علاقے مزید اسرائیلی حملوں کا شکار ہو سکتے ہیں۔
اسرائیل کے اندر جہاندیدہ اور سمجھدار لوگوں کی اکثریت اس آنے والے بحران کو تشویش کی نظر سے دیکھ رہی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اسرائیل کی سلامتی کے لیے ضروری ہے کہ اگر موجودہ تنازع کو ختم نہیں کیا جاسکتا توکم ازکم اس کو سمٹایا جائے۔ اس کے لیے ان کے خیال میں ابتدائی طور پر فلسطینی خود مختار علاقوں کو سڑکوں کے ذریعے ایک دوسرے سے ملا دیا جائے اور ان سڑکوں کا اختیار فلسطینی اتھارٹی کے پاس ہونا چاہیے۔ فقط اس ایک قدم سے نہ صرف فلسطینیوں کے غصے اور ناراضگی میں کچھ کمی آئے گی بلکہ اسرائیلی حکومت کو بے تحاشہ چیک پوائنٹس کا انتظام کرنے سے بھی نجات مل جائے گی۔
علاوہ ازیں، کیونکہ اس اقدام سے فلسطینیوں کو اپنے علاقوں میں آزادی سے آنے جانے کی اجازت مل جائے گی اس سے ان علاقوں میں معاشی ترقی کا دور شروع ہو سکتا ہے۔ جس کی وجہ سے فلسطینیوں کی اسرائیل پر توجہ بھی کم ہوگی۔ اس کے نتیجے میں تشدد کے واقعات میں بھی کمی آئے گی۔
یہ اچھی تجویز ہے مگر یہ گینز یا نتن یاہو حکومت کے لیے قطعاً قابل قبول نہیں ہو گی۔ ایسی تجاویز پر عمل درآمد شاید صرف بائیں بازو کی حکومت میں ہی ہو سکتا ہے۔ چونکہ اس وقت بائیں بازو کی قوتیں انتہائی کمزور ہیں، اس لیے مستقبل قریب میں فلسطینیوں کے لیے کسی بہتری کی امید کرنا لاحاصل ہوگی۔
جائنٹ لسٹ کو اپنی جدوجہد جاری رکھنی چاہیے اور ان کی کوشش ہونی چاہیے کہ عرب ووٹرز اگلے انتخابات میں زیادہ سے زیادہ ووٹ ڈالیں تاکہ اسرائیلی پارلیمان میں، جو کہ متناسب بنیادوں پر منتخب ہوتی ہے، اپنی نشستوں میں اضافہ کرکے سیاسی نظام میں اپنی حیثیت مزید مضبوط کر سکیں۔