واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پیر کومتنازع علاقے گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیل کی حاکمیت کا باضابطہ اعلان کر دیا ۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق، ٹرمپ نےوائٹ ہاؤس میں دورے پر آئے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہوں کی موجودگی میں دستاویزات پر دستخط کیے۔
اس موقع پر نتن یاہو نے ٹرمپ کی تعریف میں کسر نہیں چھوڑی اور انہیں صدر ہیری ایس ٹرومین جیسا صدر اور قدیم فارس کے کروش اعظم (سائرس دی گریٹ) جیسا قرار دے دیا۔
ٹرومین نے اسرائیل کو باضابطہ طور پر تسلیم کیا تھا جبکہ جنرل سائرس نے بابل کے یہودیوں کو آزاد کرایا تھا ۔
اس موقع پر نتن یاہو نے ٹرمپ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیلی حاکمیت تسلیم کرنے کا آپ کا فیصلہ انتہائی تاریخی ہے۔
اسرائیل نے 1967 میں چھ دنوں کی جنگ میں شام سے گولان کی پہاڑیاں چھین لی تھیں۔
ٹرمپ پہلے ہی 2017 میں یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرکے ایک تاریخی مگر متنازع اعلان کر چکے ہیں۔
امریکی صدر نے جمعرات کو ٹوئٹر پر نئے فیصلے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا تھا گولان کا اعلامیہ کئی دہائیوں پہلے ہی ہو جانا چاہیے تھا۔
اسرائیل میں اگلے مہینے مشکل انتخابات سے قبل اس اعلان کو نیتن یاہو کی بڑی سفارتی جیت قرار دیا جا رہا ہے۔
نیتن یاہو کو، جو اس سال اسرائیلی تاریخ کے سب سے طویل عرصے تک وزیر اعظم رہنے کا ریکارڈ بنانے جا رہے ہیں، نو اپریل کو ہونے والے الیکشن میں بینی گینٹز سے سخت مقابلے کا سامنا ہے۔
نیتن یاہو اسرائیل حامی امریکی لابی ’امریکن اسرائیل پبلک افیئرز کمیٹی‘ کی ایک کانفرنس کے سلسلے میں واشنگٹن آئے ہوئے تھے لیکن پیر کوحماس کے زیر اثر غزہ سے ہونے والے ایک راکٹ دھماکے میں سات اسرائیلی فوجیوں کے زخمی ہونے پر وہ دورہ مختصر کر کے واپس تل ابیب لوٹ گئے۔ حماس اس راکٹ حملے کی ذمہ داری سے انکار کر چکی ہے۔
ایک ایسے وقت پر جب نیتن یاہو وائٹ ہاؤس میں موجود تھے، اسرائیلی جنگی طیاروں نے غزہ میں حماس کے مبینہ ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔
ٹرمپ کے گولان ہائٹس پر فیصلے کو دنیا میں پزیرائی نہیں ملی کیونکہ اقوام متحدہ اور واشنگٹن کے اہم اتحادی فرانس اور برطانیہ نے کہا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت اسرائیل کو گولان ہائٹس پر قابض تصور کرتے ہیں۔
روسی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریہ زخارووا نے کہا ٹرمپ کا اعلان تمام عالمی طریقہ کار کو نظر انداز کرتا ہے اور اس سے مشرق وسطی میں تناؤ کی ایک نئی لہر جنم لے سکتی ہے۔
شام نے اعلان کو اپنی خود مختاری پر ’کھلا حملہ‘ جبکہ ترک وزیر خارجہ نے فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے اسے ٹرمپ کی جانب سے نتن یاہو کو ’الیکشن کا تحفہ‘ قرار دیا ہے۔