آٹھ اکتوبر 2005 کو پاکستان اور پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں آنے والے تباہ کن زلزلے کو آج 14 سال ہو گئے ہیں اور ایسے میں کشمیر کے اسی حصے کے شہری ایک اور زلزلے کی تباہ کاریوں سے نمٹ رہے ہیں۔ تاہم اس مرتبہ زلزلے سے تباہ ہونے والے علاقے مظفرآباد، باغ اور راولاکوٹ نہیں بلکہ میرپور اور اس کے گرد و نواح ہیں۔
اگرچہ گزشتہ ماہ آنے والے زلزلے کی شدت 2005 کے مقابلے میں کم تھی اور اس سے نسبتاً کئی گنا کم علاقے متاثر ہوئے، تاہم اس زلزلے نے جدید طرز پر آباد میرپور شہر اور اس کے نواحی علاقوں کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔
2005 کے زلزلے میں میرپور براہ راست متاثر نہیں ہوا تھا، تاہم اس شہر میں بسنے والے ملازمت اور کاروباری پیشہ افراد میں سے ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہے جو ان دونوں زلزلوں کا نشانہ بنے۔ ان میں کئی ایسے لوگ بھی ہیں جو 2005 کے زلزلے میں اپنا سب کچھ کھو چکے تھے مگر آج وہ اپنے جیسے سینکڑوں متاثرہ خاندانوں کی مدد کر رہے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
23 سالہ شہزاد لطیف بھی ان ہی میں سے ایک ہیں۔ مظفرآباد کے قریب وادی نیلم کے رہائشی شہزاد کے والدین 2005 کے زلزلے میں ہلاک ہو گئے تھے۔ تب سے وہ اور ان کی چار بہنیں میرپور میں یتیم بچوں کے لیے قائم ایک ادارے کشمیر آرفن ریلیف ٹرسٹ (کورٹ) میں مقیم ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے شہزاد کا کہنا تھا: ’2005 کے زلزلے نے ہمارے ماں باپ، گھر بار سب چھین لیا۔ میری عمر آٹھ سال تھی اور مجھے تو ٹھیک سے سمجھ بھی نہیں آ رہی تھی کہ ہماری دنیا ہی اجڑ گئی ہے۔‘
شہزاد لطیف نے بھرائی ہوئی آواز میں بتایا: ’پھر ہمیں کورٹ کے بارے میں علم ہوا۔ رشتہ دار ہمیں یہاں چھوڑ گئے۔ تب سے یہی ہمارا گھر ہے۔ پہلے میرے پانچ بہن بھائی تھے مگر اب پانچ سو سے بھی زیادہ ہیں۔ کورٹ میں میرے جیسے سینکڑوں اور بچے بھی ہیں جو زلزلے سے یا کسی اور سانحے سے متاثر ہوئے۔‘
’وہ زلزلہ نہیں قیامت تھی‘
2005 کے زلزلے میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور خیبر پختونخوا میں کم از کم 80 ہزار افراد ہلاک ہوئے۔ لاکھوں خاندان بے گھر، ہزاروں افراد معذور اور بچے یتیم ہوئے۔ اس سانحے میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والے علاقوں میں خیبر پختونخوا کے علاقوں بالاکوٹ، بٹگرام کے علاوہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں وادی نیلم، مظفرآباد، باغ اور راولاکوٹ کے شہر شامل ہیں۔
شہزاد کی چھوٹی بہن 17 سالہ تہمینہ لطیف بھی چودہ سال سے کشمیر آرفن ریلیف ٹرسٹ میں مقیم ہیں۔ 2005 کے زلزلے کے وقت تہمینہ اپنے گھر میں موجود تھیں اور گھر کی چھت گرنے سے وہ ملبےتلے دب گئی تھیں، تاہم کئی گھنٹوں کے بعد انہیں زخمی حالت میں نکال لیا گیا۔ انہوں نے بتایا: ’میرے امی ابو چھوٹی بہن کو لے کر ہسپتال جا رہے تھے۔ سڑک ٹوٹی تو ان کی گاڑی بھی دریا میں چلی گئی۔ ان تنیوں کا کوئی پتہ نہیں چلا۔‘
’ہمارے لیے وہ زلزلہ نہیں، قیامت تھی جس نے والدین کا پیار چھینا۔ سر سے چھت چھینی۔ سارے رشتہ دار چھین لیے۔ مگر کورٹ نے ماں اور باپ دونوں کا پیار دیا۔ یہ یتیم خانہ نہیں ہمارا گھر ہے اور یہاں گھر سے بھی زیادہ پیار ملتا ہے۔‘
جہلم ویلی کے رہائشی اسامہ عابد کی کہانی بھی شہزاد جیسی ہے۔ 2005 کے زلزلے میں عابد کے والد ہلاک ہو گئے اور اب وہ اپنے دو بھائیوں کے ساتھ کورٹ میں مقیم ہیں۔
وہ بتاتے ہیں: ’میں اُس وقت سکول میں تھا۔ سکول کی عمارت گر گئی اور میرے کئی دوست اس کے نیچے آ گئے۔ میں تو سوچ رہا تھا صرف سکول تباہ ہوا ہے۔ گھر جاؤں گا تو سب وہیں ہوں گے۔ مگر گھر پہنچ کر پتہ چلا کہ میرے والد بھی نہیں رہے۔‘
’متاثرین کا درد ہم سے بہتر کون سمجھ سکتا ہے‘
شہزاد لطیف کہتے ہیں: ’2005 میں ہمیں مدد کی ضرورت تھی اور اب ہم متاثرہ لوگوں کی مدد کر رہے ہیں۔ جس نے تباہی اپنی آنکھوں سے دیکھی ہو اور سانحہ خود جھیلا ہو اس سے بہتر کسی دوسرے کا درد بھلا کون محسوس کر سکتا ہے۔‘
انہوں نے بتایا: ’ہم یہاں ایک خاندان کی طرح رہتے ہیں۔ کئی ایک تو زلزلے سے متاثرہ ہیں تاہم سب کے ساتھ کوئی نہ کوئی سانحہ ہوا ہے۔ ہمارا درد مشترک ہے، اس لیے ہماری سوچ بھی یکساں ہے اور یہاں ہمیں تربیت بھی ایسی ہی ملتی ہے۔ جب کوئی حادثہ یا سانحہ ہوتا ہے تو ہمیں ہمارا بچپن یاد آ جاتا ہے اور ہم کوشش کرتے ہیں کہ کسی طرح ان کی مدد کو پہنچیں۔‘
حالیہ دنوں میں میرپور میں آنے والے زلزلے کے فوراً بعد کورٹ کے درجنوں رضا کار متاثرہ علاقوں میں پہنچ کر زخمیوں کو ہسپتالوں تک پہنچاتے اور انہیں ابتدائی طبی امداد فراہم کرتے رہے۔
شہزاد کے بقول: ’ہماری پہلی ترجیح تو کورٹ میں موجود بچوں کو باہر نکالنا تھی۔ ان کو کھلی جگہ پر پہنچا کر ہم دوسرے لوگوں کی مدد کرنے نکل پڑے۔ ملبے میں پھنسے لوگوں کو نکال کر ہسپتال پہنچانا، لاشوں کو نکالنا، ان کی تدفین، متاثرین کے لیے کھانے پینے کا انتظام اور اس جیسے اور کئی کام۔ جہاں ہماری ضرورت تھی ہم نے پہنچنے کی کوشش کی۔‘
شہزاد کا مزید کہنا تھا: ’صرف زلزلہ ہی نہیں، کوئی بھی سانحہ ہو تو اس کے متاثرین کی مدد کے لیے ہم پہنچتے ہیں۔ لائن آف کنٹرول پر گولہ باری ہو، سیلاب ہو، لینڈ سلائیڈنگ ہو یا کوئی بھی قدرتی آفت، کورٹ کی ٹیم وہاں سب سے پہلے پہنچتی ہے اور یہ ہماری تربیت کا حصہ ہے۔‘
کشمیر آرفن ریلیف ٹرسٹ: ’یہ زلزلے کا خوبصورت انجام ہے‘
کشمیر آرفن ریلیف ٹرسٹ کے بانی، چیئرمین چوہدری اختر کہتے ہیں کہ یہ ادارہ 2005 کے زلزلے کے بعد قائم ہوا۔ ’اس زلزلے میں ہمارے جو ماں باپ بہن بھائی مارے گئے ان کا مداوا تو نہیں ہو سکتا، مگر اس زلزلے کا ایک خوبصورت انجام جو نکلا وہ یہ ادارہ ہے۔‘
انڈپینڈنٹ اردو کو ایک انٹرویو میں چوہدری اختر کا کہنا تھا: ’2005 کے زلزلے سے متاثرہ بچوں کی کفالت کی عارضی طور پر ذمہ داری ہم نے لی تھی، مگر پھر خیال آیا کہ جب ہم ان کی دیکھ بھال چھوڑ دیں گے تو یہ بچے کہاں جائیں گے۔ تو اس مقصد کے لیے پھر ہم نے اسے باقاعدہ ایک ادارے کی شکل دی۔‘
2007 میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی حکومت نے میرپور کے قریب جڑی کس نامی علاقے میں 104 کنال زمین عطیہ کی تو اس پر کورٹ کمپلیکس کی تعمیر شروع ہوئی اور بعد میں مزید 500 کنال زمین عطیہ کی گئی۔ اس ادارے کے منتظمین کا دعویٰ ہے کہ یہ انفراسٹرکچر کے لحاظ سے جنوبی ایشیا کا سب سے بڑا کمپلیکس ہے جو صرف اور صرف یتیم بچوں کے لیے قائم کیا گیا ہے۔ اس میں 1000 بچوں کے لیے رہائش کا بہترین انتظام موجود ہے تاہم اس وقت کورٹ میں 350 بچے اور بچیاں رہتی ہیں اور اتنی ہی تعداد میں یہاں سے جا چکے ہیں۔
چوہدری اختر کہتے ہیں: ’ہم صرف 16 سال کی عمر تک ان کی ذمہ داری نہیں لیتے بلکہ ان کو اعلیٰ تعلیم دیتے ہیں۔ اچھا شہری بناتے ہیں۔ یہاں سے کئی بچے اور بچیاں فارغ ہو کر بڑے بڑے اداروں میں چلے گئے، بیرون ملک ملازمتیں کرنے لگے۔ مگر وہ سب کے سب اب بھی اس ادارے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’2005 میں جو بچے خود متاثر ہوئے یا یتیم ہوئے، اب وہ جوان ہیں اور یہاں میرپور میں آنے والے زلزلے سے متاثر ہونے والوں کی مدد کر رہے تھے اور ان تک ریلیف پہنچا رہے تھے۔ یہ خدا کا ایک ایسا کام ہے کہ ایک زلزلے سے لے کر دوسرے زلزلے تک ان بچوں کا کردار کیسے تبدیل ہوا۔‘
چوہدری اختر کے مطابق: ’یہ ادارہ مستحق بچوں کے لیے بنا ہے اور یہاں ذات پات، رنگ نسل یا مذہب نہیں پوچھتے بلکہ انسانیت کو اول درجہ دیتے ہیں۔ یہ ادارہ صرف کشمیر کا نہیں پورے پاکستان کا ہے اور پورے پاکستان سے بچے یہاں آتے ہیں۔‘
2005 کے زلزلے کے بعد قائم ہونے والے اس ادارے کو برطانیہ میں مقیم کشمیریوں کا مالی تعاون حاصل ہے۔ اگرچہ حالیہ زلزلے میں اس ادارے کی عمارتوں کو بھی نقصان پہنچا تاہم یہاں مقیم بچے محفوظ رہے۔ منتظمین کے مطابق کچھ عمارتوں میں معمولی دراڑیں پڑی ہیں تاہم کوئی ایسا نقصان نہیں جو تشویش ناک ہو۔