وزیر اعظم عمران خان کے سہ روزہ دورہ چین سے ایک روز قبل صدرِ پاکستان نے چین و پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبوں میں درپیش رکاوٹیں دور کرنے کے لیے ’چین و پاکستان اقتصادی راہداری اتھارٹی‘ کے قیام کا آرڈیننس جاری کیا۔ اس کے ساتھ ہی سی پیک سے متعلق سرگرمیوں میں سرعت لانے کا چینی مطالبہ بھی پورا ہو گیا۔
وزیراعظم کا اکتوبر کا دورہ چین 11 ماہ کے قلیل عرصے میں تیسرا دورہ تھا۔ صدر شی جن پنگ کے بھارتی دورے اور ایف اے ٹی ایف کے اکتوبر کے اجلاس – جہاں پاکستان کے گرے لسٹ سے اخراج کا سوال زیر غور آئے گا – سے عین قبل یہ دورہ وقت کے اعتبار سے انتہائی اہمیت کا حامل تھا۔ پاکستان کے لیے یہ امر بھی قابلِ افتخار ہے کہ عمران خان چین کی 70 سالہ یادگار تقریبات کے بعد چین کا دورہ کرنے والے پہلے وزیراعظم تھے۔
دورے کے دوران وزیراعظم نے ایک اعلیٰ سطح کے سیاسی وفد اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے ہمراہ صدر شی جن پنگ سے ملاقات کی اور وزیراعظم لی کی چینگ سے وفود کی سطح پر بات چیت کی۔
وزیراعظم کی چین میں ملاقاتوں کے دوران متعدد اہم امور پر تبادلہ خیالات ہوا لیکن یہاں پر ہماری توجہ چین و پاکستان اقتصادی راہداری کے معاملات پر رہے گی۔ اقتصادی راہداری سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے لیے فریقین نے متفقہ منصوبوں کو تیز تر عملی جامہ پہنانے کے عزم کا اظہار کیا اور بجلی، پٹرولیم، گیس، زراعت، صنعت اور انفراسٹرکچر کے شعبوں میں طے شدہ منصوبوں پر مزید غور و خوض کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس اہم بات پر بھی اتفاق ہوا کہ دوسرے مرحلے میں سی پیک کی زیادہ تر توجہ پاکستان میں صنعتی اور سماجی و اقتصادی ترقی کے منصوبوں پر مرکوز رہے گی۔
بیجنگ میں اپنی تمام ملاقاتوں میں عمران خان نے سی پیک منصوبوں پر عمل درآمد تیز تر کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ گذشتہ دوروں کی نسبت، اس دفعہ سی پیک کے لیے ان کا جوش و خروش اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ پچھلے برس اگست میں اقتدار سنبھالنے سے لے کر اب تک وزیراعظم سی پیک کے بارے میں ایک مکمل یوٹرن لے چکے ہیں۔ زیرِ نظر تحریر اس یوٹرن اور سی پیک کی ترقیاتی صلاحیتوں کا جائزہ لینے کی ایک کوشش ہے۔
سی پیک منصوبوں میں سست پیش رفت کیوں؟
نکتہ اول: اقتدار کے دائرے میں قدم رکھتے ہی، بلا کسی ثبوت کے تحریک انصاف حکومت نے سی پیک سے متعلق منصوبوں میں پچھلی حکومت کی طرف سے بڑے پیمانے پر بدعنوانی کے الزامات لگانے اور ان منصوبوں پر تحفظات کا اظہار کرنا شروع کر دیا تھا۔ سی پیک معاہدوں اور منصوبوں کے مندرجات سے لاعلم اور بنیادی فہم و تفہیم سے بعید، نئی حکومت نے قریبی دوست ملک چین کی ساکھ کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے الزامات عائد کیے۔ روایتی طور پر ایک پاکستانی سربراہِ حکومت کے پہلے غیرملکی دورے کی منزل چین ہی ہوتی ہے لیکن عمران خان کی چین جانے میں غیرمعمولی تاخیر کی ایک وجہ یہ منفی سوچ بھی ہو سکتی ہے۔ ایک سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد بھی بدعنوانی کا کوئی ثبوت سامنے نہ آنے سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ ان معاہدوں میں خرابی نہیں تھی۔ البتہ ناپختہ سوچ کی وجہ سے ایک قیمتی سال ضرور ضائع ہو گیا ہے۔
نکتہ دوم: سی پیک کی شفافیت کے بارے میں پی ٹی آئی کی طرف سے اٹھائے گئے سوالات میں امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کے شکوک کی بازگشت سنائی دی۔ پومپیو نے متنبہ کیا تھا کہ پاکستان کے آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات میں یہ بات یقینی بنائی جائے کہ امریکی ٹیکس دہندگان کا پیسہ چینی قرضوں کی ادائیگی میں استعمال نہ ہو۔ چین مخالف امریکی سینیٹرز کے ایک گروپ نے بھی اپنی حکومت سے مطالبہ کیا کہ آئی ایم ایف کی طرف سے پاکستان کو دیا جانے والا قرضہ چین کے بی آر آئی منصوبوں میں استعمال نہ ہو۔ اس سے سی پی ای سی کے خلاف امریکہ دشمنی صاف ظاہر ہوتی ہے۔
نکتہ سوم: اپنے ابتدائی دنوں میں تحریک انصاف حکومت نے یہ الزام بھی لگایا کہ چینی کمپنیوں کو ایسی ترجیحات دی گئی ہیں جن سے پاکستانی فرمیں محروم رہیں اور نتیجے میں چینی کمپنیوں کو زیادہ فائدہ ہوا۔ اس کے علاوہ اس سکیم کی بڑے پیمانے پر تشہیر نے اس کے ممکنہ منفی اثرات کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف مثبت پہلو اجاگر کرکے عوام اور میڈیا کو گمراہ کیا۔ چینی حکام ان خدشات کی مسلسل تردید کرتے رہتے ہیں۔
عمران خان حکومت کی سی پیک منصوبوں پر نظر ثانی کی کوششوں کا ایک مثبت نتیجہ یہ ہوا ہے کہ اب توجہ بڑے منصوبوں سے ہٹ کر معاشرتی ترقی کے نسبتاً عوام دوست منصوبوں کی جانب مبذول کی گئی ہے۔ ان میں صنعت و حرفت، زراعت، تعلیم، پیشہ ورانہ تربیت اور اس طرح کے ملازمت کے مواقع پیدا کرنے کے منصوبے شامل ہیں جس سے عوام کو براہ راست فائدہ ہوگا۔ بلا شک معیارِ زندگی بہتر بنانا، بے روزگاری سے نمٹنا اور غربت کا خاتمہ کرنا سی پیک منصوبوں کا ایک اہم نتیجہ ہوگا۔
سفارشات:
اول: اب جب کہ وزیراعظم عمران خان کو اپنی خام نگاہی کا احساس ہوچکا ہے اور وہ چین کو یہ بات باور کرانے تشریف لے گئے کہ اب سی پیک ان کی حکومت کی اولین ترجیح ہے، یہ ضروری ہے کہ دونوں فریق جاری منصوبے بروقت مکمل کرنے کے لیے مستقل بنیادوں پر کام جاری رکھنے کا عزم کریں۔ اس سلسلے میں پہلے قدم کے طور پر حکومت کو خصوصی اقتصادی منطقوں (زونز) کے قیام کے متعلق فوراً فیصلہ کرنا چاہیے کیونکہ اس اقدام سے چینی کمپنیوں کو پاکستان نقل مکانی کے لیے راغب کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح ملک بین الاقوامی سلسلہِ رسد کا حصہ بن کر اپنی برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ کر سکتا ہے۔
دوئم: موجودہ حکمرانوں کو سابق حکومت کی غلطیوں سے بچنے کی ضرورت ہے جس نے سی پیک کے بارے میں صرف جزوی معلومات جاری کیں۔ اس کے عہدیدار اکثر متضاد دعوے کرتے رہے جس کے نتیجے میں بدعنوانی جیسے بے بنیاد الزامات کو ہوا ملتی رہی۔ اپنے تئیں چین کو بھی کوشش کرنی چاہیے کہ بڑھتے ہوئے چینی قرضہ جات اور اثر و رسوخ پر تنقید کا مقابلہ کرنے کے لیے بی آر آئی منصوبوں کی شفافیت اور نظم و نسق بہتر بنانے پر مزید توجہ دے۔
سوئم: پاکستان میں چینی مفادات کو درپیش سکیورٹی خطرات پریشان کن ہیں۔ معاشی و معاشرتی ترقی کے منصوبے جاری رکھنے کے لیے ان مسائل کا حل ناگزیر ہے۔ چینی منصوبوں اور کارکنوں کی حفاظت کے لیے 15 ہزار نفوس پر مشتمل خصوصی حفاظتی دستے کی تشکیل کو سراہا گیا ہے لیکن اس پر مزید اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
چہارم: اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ پاکستان کے تمام خطے اور صوبے بلا امتیاز اس تاریخی موقع سے فائدہ اٹھا سکیں۔ سماجی و اقتصادی اور سیاسی مسائل سے بچنے کے لیے فیصلہ سازی کے عمل میں بلا استثنیٰ سب کی شمولیت، مناسب رقم کے عوض علاقائی وسائل کا استعمال اور منصفانہ اور آزاد معاشی مسابقت جیسے لوازمات ناگزیر ہوں گے۔
پنجم: جب تک خطے میں بھارت - پاکستان تناؤ جاری رہے گا غالب امکان ہے کہ اقتصادی راہداری کے زیادہ تر منصوبے جنوب ایشیائی علاقائی رابطے سے محروم رہیں۔ اس کے منفی اثرات سے نمٹے کے لیے مغرب کی طرف نقل و حرکت اہم ہوگی۔
آخر میں یہ بات بھی ذہن نشین رکھنا ضروری ہے کہ سی پیک منصوبوں کے اپنے مضمرات ہوں گے۔ چینی سرمایہ کاری سے پاکستان کی معیشت کو تقویت مل سکتی ہے لیکن اسی کے ساتھ کسی حد تک باہمی انحصار بھی لازماً پیدا ہوگا۔ اقتصادی روابط کے ساتھ ساتھ دونوں ممالک کو سیاسی اور دفاعی روابط بھی بڑھانے ہوں گے۔ چین کی ابھرتی ہوئی طاقت اور اثر و رسوخ کے خلاف بھارت - امریکہ گٹھ جوڑ کے مد نظر لازم ہے کہ چین اور پاکستان کی جنوبی ایشیا پالیسی میں مزید ہم آہنگی پیدا کی جائے۔