وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے حکام نے ملک بھر کے چیمبرز آف کامرس سے کاروباری مقاصد کے لیے پاکستان آنے والے چینی شہریوں کی تفصیلات طلب کرلی ہیں۔
وزارت خارجہ کے ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ ایک سال میں 91 ہزار چینی شہریوں نے پاکستان کا دورہ کیا۔ ایک سینیئر امیگریشن آفیسر کا کہنا تھا کہ 19-2018 میں 32 ہزار چینیوں کے ویزوں میں توسیع کی گئی۔
یہ تعداد 17-2016 کے مقابلے میں 41 فیصد زیادہ ہے جبکہ ادارہ شماریات کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں کُل 31 ہزار چینی مستقل رہائش پذیر ہیں جو مختلف کمپنیوں میں ملازمت اور ذاتی کاروبار کر رہے ہیں۔
سرکاری اعداد وشمار کے مطابق سی پیک منصوبے کے بعد پہلے کی نسبت 21 فیصد زائد چینی باشندوں نے پاکستان کا رخ کیا جن میں سیر وسیاحت کے لیے آنے والے بھی شامل ہیں۔
چینی سرمایہ کاری:
لاہور چیمبر آف کامرس کے سیکرٹری جنرل شاہد خلیل نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے پاس کُل 124 چینی کمپنیاں رجسٹرڈ ہیں، جنہوں نے سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) میں رجسٹریشن کے بعد چیمبر آف کامرس لاہور کی رکنیت حاصل کی۔
انہوں نے بتایا کہ ایف آئی اے کی جانب سے چینی کمپنی سے متعلق ریکارڈ طلب کیا گیا جو انہیں فراہم کردیا گیا ہے۔
شاہد خلیل کے مطابق ’بہت سے چینی سرمایہ کار پاکستانی سرمایہ داروں کے ساتھ مل کر شراکت داری معاہدوں کے تحت بھی کاروبار کر رہے ہیں۔ یہ کمپنیاں پاکستانی صنعت کاروں کے نام سے پہلے ہی رجسٹرڈ ہیں تاہم ان کمپنیوں میں کام کرنے والے چینیوں کا ریکارڈ متعلقہ ادارے ہی جمع کرتے ہیں۔‘
اس کے علاوہ کراچی، اسلام آباد ودیگر شہروں میں کام کرنے والی چینی کمپنیوں کے مالکان بھی وہاں قواعد وضوابط کے مطابق چیمبر آف کامرس کی رکنیت حاصل کر چکے ہیں۔ متعلقہ اداروں نے ہر نوعیت کی نوکری یا کاروبار کرنے والے چینی باشندوں کا ریکارڈ مرکزی طور پر جمع کرنے کا کام شروع کر دیا ہے۔
ایف آئی اے کے سینیئر افسر نے بتایا کہ جب سے چینی باشندوں کی پاکستانی لڑکیوں سے شادی کرکے انہیں چین لے جانے کا سکینڈل سامنے آیا ہے وزارت داخلہ کی ہدایت پر تمام شہروں سے چینی باشندوں کی معلومات جمع کرنے کا کام شروع کر دیا گیا ہے۔
اب تک 12 ہزار ایسے چینی شہریوں کا ریکارڈ جمع کیا گیا ہے جو پہلے سے دستاویزی طور پر ریکارڈ کا حصہ نہیں تھے۔ ان کا کہنا تھا پاکستان میں شادیوں اور دیگر سماجی معاملات اور لین دین سے متعلق قانون سازی کی ضرورت ہے جبکہ چینی باشندوں کے پاکستان میں داخلے پر جرائم سے متعلق چینی پولیس کا ریکارڈ بھی لازم قراردے دیا گیا ہے۔
پاکستانی معیشت پر چین کے اثرات
گذشتہ کئی سالوں کے دوران پاکستانی معیشت پر چین کے گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں جس کے لیے اب چینی باشندوں کی یہاں آمدورفت سے متعلق بھی جامع پالیسی ناگزیر ہوتی جارہی ہے۔ چینی صدر شی جن پنگ نے کچھ سال قبل اپنے دورۂ پاکستان کے دوران 6 ارب 45 کروڑ ڈالرکے منصوبوں پر دستخط کیے تھے، جس میں پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبوں میں 8 ارب 33 کروڑ ڈالر توانائی اور8 ارب 11 کروڑ ڈالر انفرا سٹرکچر کے منصوبے شامل ہیں۔
بجلی اور پانی کے 15منصوبوں میں 1320 میگاواٹ کا پورٹ قاسم کول پاور پلانٹ، 50 میگاواٹ کا ہائیڈرو چائنا ونڈ پروجیکٹ، 660 میگاواٹ کا حبکو کول پاور پلانٹ، 50 میگاواٹ کا سچل ونڈ پراجیکٹ، 1320 میگاواٹ کا ساہیوال کول پاور پلانٹ، 300 میگاواٹ کا سالٹ رینج کول پاور پلانٹ، 870 میگاواٹ کا سوکی کناری ہائیڈرو پاور پراجیکٹ، 720 میگاواٹ کا کاروٹ ہائیڈرو پاور پراجیکٹ، 100میگاواٹ کا UEP ونڈ پراجیکٹ، 1320میگاواٹ کا SEC تھرکول پاور پلانٹ، 1000میگاواٹ کا قائداعظم سولر پارک اور 660 میگاواٹ کا اینگروتھرکول پاور پلانٹ شامل ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان اور چین تعلقات کی نوعیت:
معروف تجزیہ کار حسن عسکری کے مطابق پاکستان اور چین کا باہمی تعاون پہلے باقی شعبوں میں زیادہ مضبوط تھا، لیکن اب زیادہ توجہ معاشی تعاون پر مرکوز ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات 1951 میں قائم ہوئے۔ شاہراہِ قراقرم 1974 میں بننا شروع ہوئی تھی، جس کا افتتاح 82-1981 میں ہوا۔ دونوں ملکوں میں زیادہ تعاون 1951 سے لے کر 2000 تک سیاسی، سفارتی، دفاعی اور ایٹمی تعاون کی شکل میں تھا۔ یہ ایٹمی تعاون دفاع اور بجلی کی پیداوار میں مدد دیتا ہے۔ اس کے علاوہ خلائی میدان میں بھی تعاون تھا۔ 2000 کے ابتدائی برسوں تک پاکستان اور چین میں معاشی تعاون بہت کم تھا۔ 4-2003 تک باہمی تجارت ایک ارب ڈالر تک تھی جو اب 15 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔
اگرچہ پچھلے سات، آٹھ برس میں دونوں ملکوں کے تعلقات میں زیادہ بڑا فوکس معیشت پر ہی رہا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ پاکستانی بحری افواج اور جے ایف 17 سمیت مختلف پراجیکٹس کی شکل میں پاکستان کے ساتھ فضائی دفاعی تعاون میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان اور چین کی زمینی افواج کے درمیان بھی مضبوط رابطہ ہے اور باقاعدگی کے ساتھ دونوں افواج کی مشترکہ مشقیں ہو رہی ہیں۔ اعلیٰ سطح پر مسلح افواج کے درمیان نہ صرف رابطے بڑھے ہیں بلکہ آپریشنل لیول پر بھی تعاون ہوا ہے۔
تعلیمی میدان میں بھی کافی تعاون بڑھ چکا ہے اور چینی اداروں اور پاکستانی اداروں کے درمیان بہت سے معاہدے ہو چکے ہیں، جن کے باعث تعلیمی ایکسچینجز بھی بہت بڑھی ہیں۔ مشترکہ تحقیق بھی بہت زیادہ ہورہی ہے۔
دونوں ملکوں کے درمیان ثقافتی تعاون بھی بڑھتا جارہا ہے۔ گزشتہ پانچ، چھ برس کے دوران سرکاری اور غیرسرکاری سطح پر میڈیا کے اداروں کے درمیان تعاون کافی آگے بڑھا ہے۔ پاکستان اور چین کے درمیان اس وقت کم از کم 400 مختلف معاہدے موجود ہیں، جس کا مطلب ہے کہ زندگی کے ہر شعبے میں کسی نہ کسی سطح پر تعاون چل رہا ہے یا اس کی بنیاد رکھی گئی ہے۔ اس لیے اب دونوں ملکوں کو شہریوں کی آمدورفت اور مستقل سکونت سے متعلق موثر قانون سازی ضروری ہے۔