(یہ کہانی قطعاً غیر سیاسی ہے۔ موجودہ حالات اور کرداروں سے کسی بھی قسم کی مشابہت محض اتفاقی ہو گی، جس کے لیے ادارہ ذمہ دار نہ ہو گا)
کہتے ہیں انسانی جسم میں دو سو چھ ہڈیاں ہوتی ہیں۔ ناڈو بھائی کی ان میں سے پونے دو سو ہڈیاں تو ٹوٹ چکی ہوں گی۔ ایک عام آدمی کو انسانی جسم کے جن جن اعضا کا نام معلوم ہے، ناڈو ان سب اعضا کا آپریشن کروا چکا ہے۔ کیا پتّہ، کیا پھیپھڑے، کیا گردے، کیا جگر۔ ناڈو کے بقول وہ مرنے سے قبل ہی اپنا پوسٹ مارٹم کروا چکا ہے۔
آپ پوچھیں گے ناڈو بھائی کون؟ تو یہ ہمارے دوست ہیں۔ نام ان کا کچھ اور ہے، مگر یہاں ناڈو بھائی فرض کر لیں۔
اسی ایکسیڈنٹ کا ذکر اوپر آیا تھا جس میں وہ اپنے بدن کی بیشتر ہڈیاں تڑوا بیٹھے تھے۔ ایکسیڈنٹ کے علاوہ ناڈو کے ساتھ جو دوسرا قابل ذکر واقعہ پیش آیا وہ تھا ڈی جی خان جیل میں نوکری کا۔
نجانے کیوں ناڈو کے گھر والوں کو لگتا تھا کہ ناڈو سپاہی بننے کے لیے ہی پیدا ہوا ہے۔ ادھر پنجاب پولیس میں بھرتی کا اشتہار آیا ادھر ناڈو کے گھر والے پرامید کہ اس بار یہ ضرور سلیکٹ ہو جائے گا۔
ناڈو کہتا ہے کہ کوئی درجن بھر دوڑیں دوڑنے کے بعد جب انہوں نے ایک بار پھر والد کے ہاتھ میں بھرتی کے اشتہار والا اخبار دیکھا تو ان کے کچھ کہنے سے قبل ہی ہاتھ جوڑ دیے کہ ’ابا جی میں بندہ ہاں، عربی گھوڑا نئیں!‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
چاچا جی کو شاید اس پر ترس آ گیا۔ پنجاب پولیس والے خواب سے دستبردار ہو گئے اور برخوردار کو جیل پولیس میں بھرتی کرانے کا بیڑا اٹھایا۔ یہاں وہاں سے کہلوا کر ڈی جی خان جیل میں بطور ڈرائیور بھرتی کروا دیا۔
ناڈو نے شاپر میں کپڑے ڈالے، گھر والوں سے گلے مل کر نئی جاب پر ڈی جی خان چل پڑا۔ جیل پہنچا، گارڈ کو بتایا کہ بطور ڈرائیور بھرتی ہوا ہوں۔ اس نے خوش دلی سے ویلکم کیا۔
ناڈو جائننگ رپورٹ دینے جیلر صاحب کے دفتر پہنچا۔ جیلر صاحب کو باغبانی کا بہت شوق تھا، ان کو خبط تھا کہ ان کی جیل میں پھل پھول درخت پودوں کی بہتات ہو، اس لیے انہوں نے ناڈو کو ٹریکٹر چلانے کی ذمہ داری سونپ دی۔ جیلر صاحب کے حکم پر ناڈو کو پولیس فیول سٹیشن اور پولیس وہیکل ورک شاپ کا دورہ کرایا گیا۔ ٹریکٹر کو ٹچن ٹیٹ کرنے کے لیے نٹ کابلے آئل فلٹر وغیرہ کرانے کی بھی اجازت دے دی گئی۔
ناڈو بھائی نے پہلے ہی دن ورکشاپ والے سے ٹریکٹر مرمتی کا ایک لاکھ 72 ہزار کا بل بنوایا اور صاحب کی میز پر پہنچا دیا۔
جیلر صاحب کا ماتھا ٹھنکا، انہوں نے کہا، ’استاد آپ نے اتنا بڑا بل بنوایا ہے، ضرور ٹیکنیکل آدمی ہوں گے۔ چل کر ذرا ٹرائی تو دیں، ہم بھی تو دیکھیں آپ کیسا ٹریکٹر چلاتے ہیں۔‘
اب ناڈو کے فرشتوں کو بھی نہیں معلوم کہ ٹریکٹر کیسے چلتا ہے۔ لیکن پراعتماد طریقے سے صاحب کو ساتھ لے کر جیل کے میدان میں آ گئے۔ ٹریکٹر لایا گیا، ناڈو صاحب پہلے سے سٹارٹ ٹریکٹر پر براجمان ہوئے اور آنکھیں بند کر کے بسم اللہ پڑھ کر جہاں ہاتھ پڑا اسی ہینڈل کو کھینچ لیا، سٹیرنگ گھمایا، اور ٹریکٹر نے جیلر صاحب کی جانب دوڑ لگا دی۔
پہلے تو جیلر صاحب مطمئن ٹھہرے رہے لیکن جب ٹریکٹر خطرناک حد تک قریب پہنچا تو جیلر صاحب نے بھی دوڑ لگا دی۔ اب سین کچھ ایسا کہ آگے آگے جیلر صاحب اس کے پیچھے ٹریکٹر اور ٹریکٹر کے پیچھے جیل کا سارا عملہ۔ سب کی دوڑیں لگ رہی ہیں، چیخ پکار، ہاؤ ہو، ارے پکڑو، روکو روکو۔
اب ناڈو کو کچھ سمجھ نہ آئے کہ اس بلا کو کیسے روکنا ہے۔ خیر جب کچھ نہ سوجھا تو جیلر صاحب کے دفتر کے ساتھ والے پلر میں جا کر ٹھوک دیا۔ اللہ اللہ کر کے ٹریکٹر رکا، ناڈو کندھے سے صافہ جھٹک کر یہ کہتے ہوئے نیچے اترے، ’مجھے لگتا ہے اس کی بریکیں بھی فیل ہیں۔ اس کا خرچہ بھی درج کرنا پڑے گا۔‘
جیلر صاحب نے ناڈو کو کھا جانے والی نظروں سے گھورا اور بنا کچھ کہے آفس میں چلے گئے، ناڈو اعتماد سے چلتے ہوئے چپڑاسی کے پاس پہنچے اور کہا، ’صاحب سے پوچھو، ٹرائی پوری ہو گئی ہے تو ٹریکٹر کو گیراج میں کھڑا کر دوں؟‘
عملے نے ناڈو کا شاپر منہ پر مارتے ہوئے کہا، ’نکل گدھے، پہلی فرصت میں نکل۔ ہم خود گیراج میں ٹھہرا لیں گے۔ تم نے ابھی ہمارے صاحب کا تختہ کر دیا تھا۔‘
ناڈو کہتا ہے جس گارڈ نے آتے ہوئے اسے ویلکم کیا تھا اسی گارڈ نے تقریباً گھسیٹتے ہوئے باہر کا راستہ دکھا دیا۔