تحریک انصاف حکومت میں کئی نئی روایات قائم کی جا رہی ہیں جن کی افادیت پر فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔ ان روایات میں حال ہی میں ایک نیا اور یقیناً مضحکہ خیز اضافہ ہوا ہے۔ ایسا لگتا ہے کچھ فیصلے طے شدہ طریقہ کار پر عمل کیے بغیر کیے جا رہے ہیں جو بعد میں واپس لینے پڑتے ہیں اور شرمندگی کا باعث بنتے ہیں۔ ایسا ہی ایک فیصلہ حال میں سری لنکا میں پاکستانی سفیر کی تعیناتی کا ہوا ہے۔
پاکستان کی تاریخ میں شاید پہلی مرتبہ ایک سفیر کی تعیناتی کابینہ میں زیر بحث آئی اور ایک وزیر نے کھل کر اپنی ہی وزارت کے ماتحت ادارے کی طرف سے کی گئی نامزدگی کو چیلنج کیا اور استفسار کیا کہ کیسے ان کی وزارت سے منظوری حاصل کیے بغیر سری لنکا میں جنرل سعد خٹک کی نامزدگی کی جا سکتی ہے۔
مروجہ طریق کار کے مطابق کسی بھی سابق فوجی افسر کی بطور سفیر نامزدگی سے پہلے جی ایچ کیو، وزارت دفاع کو مطلع کرنے کے بعد وزارت خارجہ کو نامزد سفیر کا نام بھیجتا ہے۔ وزیراعظم سے اس کی منظوری بعد میں حاصل کی جاتی ہے۔ لیکن اس تعیناتی میں وزیر دفاع کے ردعمل سے واضح ہوگیا کہ طے شدہ طریقہ کار سے ہٹ کر جنرل خٹک کی نامزدگی کی گئی اور متعلقہ وزیر کو اندھیرے میں رکھا گیا۔ اس معاملے میں وزیر دفاع کا سیخ پا ہونا قدرتی امر ہے۔ اس سے قطع نظر، کیا اس حساس معاملے کو پبلک میں لانا مناسب تھا؟ اس سوال کا جواب کسی بھی پہلو سے اثبات میں نہیں دیا جا سکتا۔ وزیر دفاع کو اگر اس نامزدگی پر کوئی اعتراض تھا تو مناسب طریقہ یہ تھا کہ وہ یہ مسئلہ ایک مراسلے یا ملاقات کے ذریعے وزیراعظم کے نوٹس میں لاتے۔ اسے کابینہ میں اٹھانا اور پھر اس کی تشہیر کرنا، جبکہ وزارت خارجہ نے جنرل خٹک کے نام کا اعلان ایک پریس ریلیز میں کر دیا تھا اور شاید سری لنکا کی حکومت سے ان کی تعیناتی کی اجازت بھی مانگ لی تھی، قطعاً نامناسب قدم تھا۔
وزیر دفاع کا یہ اقدام پی ٹی آئی کے اندر کسی بڑے مسئلے اور اداروں کے درمیان رابطے کے فقدان کی طرف بھی نشاندہی کرتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ نوشہرہ کے دو خٹکوں میں ذاتی عداوت اس بصورت دیگر معمول کی تعیناتی کو اس نہج پر لے آئی ہو۔ بہرحال پارٹی مسائل اور اداروں کی رقابت یا ذاتی چپقلش کو اس طرح عوامی سطح پر اچھالنے سے پی ٹی آئی حکومت کی گورننس پر سنجیدہ سوالات اٹھ گئے ہیں۔
مقتدر حلقوں میں یہ بات زور پکڑتی جا رہی ہے کہ حکومت ریاست کے مسائل کو حل کرنے میں یا انہیں اتفاق رائے سے آگے بڑھانے میں ناکام ہوتی جا رہی ہے۔ اس کی بڑی وجہ قیادت کی عمومی کم معاملہ فہمی اور نااہلی ہے۔ اس کے علاوہ حکومت کے سرکردہ رہنما ایک دوسرے کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں اور انہیں موجودہ سیاسی اور اقتصادی بحرانوں کا حل تلاش کرنے میں کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے۔
کئی رہنما اب ’عمران کے بعد‘ کے منظرنامے میں زیادہ دلچسپی لے رہے ہیں اور مستقبل کے اس ’مائنس عمران‘ دور میں اپنی جگہ تلاش کرنے یا پیدا کرنے میں پورے انہماک سے مصروف ہیں۔ مولانا فضل الرحمان کے مستقبل قریب کے دھرنے نے بھی پی ٹی آئی رہنماؤں کی بے چینی میں اضافہ کر دیا ہے اور مولانا کے بڑھتے ہوئے اعتماد سے ان کا اسٹیبلشمنٹ پر یقین بھی کم ہونے لگا ہے۔ یہ تمام علامات ایک بڑے سیاسی بحران کی طرف اشارہ کر رہی ہیں۔ ان بحرانوں سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت اسٹیبلشمنٹ سے داد طلبی کی بجائے سیاسی قوتوں کے ساتھ مل بیٹھ کر سیاسی مسائل کو سیاسی طریقے سے حل کرنے کی کوشش کرے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جنرل خٹک کے علاوہ چھ اور سفیروں کی تعیناتی کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔ اس میں وزارت خارجہ کے ایک پرانے ریٹائرڈ افسر 75 سالہ منیر اکرم بھی شامل ہیں۔ ان سات تعیناتیوں میں دو غیر پیشہ ور سفارت کار شامل ہیں۔ یہ تناسب کے لحاظ سے تقریباً 30 فیصد کے قریب ہے جو عرصہ دراز سے طے شدہ 20 فیصد کوٹے سے تجاوز کر رہا ہے۔ اس 20 فیصد کوٹے میں یہ بھی طے تھا کہ چار سے زیادہ ریٹائرڈ فوجی افسر سفیر کے طور پر تعینات نہیں کیے جائیں گے لیکن اگر سری لنکا کی تعیناتی کو شامل کر لیں تو اس وقت تقریباً سات ریٹائرڈ فوجی افسران سفیر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ یہ نہ صرف اس کوٹے کے خلاف ورزی ہے بلکہ یہ وزارت خارجہ کے اُن افسران کی حق تلفی بھی ہے جو کہ طویل عرصے سے اسلام آباد میں اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں لیکن انہیں ان ممالک میں تعیناتی کے قابل نہیں سمجھا گیا۔
کولمبو میں 2004 سے اب تک تعینات پاکستانی ہائی کمشنر |
میجر جنرل ریٹائرڈ شاہد حشمت |
میجر جنرل ریٹائرڈ سید شکیل حسین |
میجر جنرل ریٹائرڈ قاسم قریشی |
سیما الٰہی بلوچ |
ایئر مارشل ریٹائرڈ شہزاد چوہدری |
کرنل ریٹائرڈ بشیر ولی مہمند |
سری لنکا میں جنرل خٹک تقریباً پانچویں مسلسل فوجی سفیر ہوں گے جس سے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہاں کیا ایسی خاص بات ہے یا ہمارے تعلقات کی نوعیت کیا ہے جو کسی فوجی جنرل ہی کی سمجھ میں آ سکتی ہے اور وزارت خارجہ کے پیشہ ور سفارت کار انہیں سمجھنے سے قاصر ہیں؟
سری لنکا میں تعینات آخری فوجی سفیر کی قابلیت کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے سری لنکا کے صدر کے ساتھ اپنی ملاقات کے بارے میں ایک پریس ریلیز میں ایسی باتیں بھی صدر سے منسوب کر دیں جو انہوں نے نہیں کہی تھیں۔ تردید میں سری لنکا کے صدر کے دفتر سے ایک باقاعدہ بیان جاری کیا گیا۔ اس سے پاکستان کے لیے سبکی اور پریشان کن سفارتی صورت حال پیدا ہو گئی جس کو ہمسایہ ملک نے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا۔
یقیناً اس طرح کی مبالغہ آرائی اور غلط بیانی دو دوست ملکوں کے درمیان تعلقات کشیدہ کر سکتی ہے۔ سفارت کاری میں انتہائی احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ فہم و فراست صرف تجربے سے آتی ہے۔ مناسب تو یہ ہوتا کہ سری لنکا میں سفارت کے لیے وزارت خارجہ میں موجودہ ڈائریکٹر جنرل برائے جنوبی ایشیا کی تعیناتی کی جاتی جو تقریباً پچھلے چار سالوں سے سری لنکا اور جنوبی ایشیا کے دوسرے ممالک کے معاملات دیکھ رہے ہیں۔
مگر ان کی بجائے جنرل خٹک کو، جو شاید سری لنکا کو زیادہ نہیں جانتے ہوں گے، تعینات کرنے کی کوشش کی گئی۔ وزیراعظم اداروں کی مضبوطی کے بارے میں بار بار کہتے پائے گئے ہیں، لیکن اس طرح کی تقرریوں سے ادارے مضبوط نہیں بلکہ کمزور ہوں گے۔ ارباب حکومت پر لازم ہے کہ کوئی بھی قدم اٹھاتے ہوئے ہمیشہ قومی مفادات کو مدنظر رکھیں۔ سفیر کی تعیناتی کوئی حکومت کے خرچ پر چھٹی منانا نہیں ہوتا بلکہ ایک اہم قومی ذمہ داری ادا کرنا ہوتی ہے۔
اسی طرح منیر اکرم جو ایک منجھے ہوئے پیشہ ور سفارت کار کے طور پر جانے جاتے ہیں اور انتہائی کامیابی سے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کے بعد ریٹائرڈ ہوئے، ان کی 75 سال کی عمر میں دوبارہ نیویارک میں تعیناتی سے وزارت خارجہ کے سینیئر افسران میں بے چینی پھیل گئی ہے۔ 2014 سے نیویارک میں غیر پیشہ ور سفارت کار ملیحہ لودھی پاکستان کی مستقل مندوب رہی ہیں اور اب آئندہ تقریباً تین سال تک منیر اکرم یہ ذمہ داریاں سنبھالیں گے۔
اس طرح تقریباً ان آٹھ سالوں میں وزارت خارجہ کا کوئی بھی حاضر سروس افسر نیویارک میں سفیر کے طور پر کام نہیں کرسکے گا۔ یقیناً منیر اکرم کا تجربہ مکرم ہے لیکن کیا ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد تقریباً 11 سال سے اقوام متحدہ میں ہمارا سفارت خانہ ان کے بغیر کام نہیں کر رہا تھا؟ کیا وزارت خارجہ میں اس وقت کوئی افسر اس قابل نہیں جو نیویارک میں ذمہ داریاں سنبھال سکے؟ درحقیقت ایسا نہیں ہے لیکن حکومت کے اس اقدام نے کچھ ایسا ہی تاثر چھوڑا ہے۔ بہرحال وزیراعظم اگر واقعی ایسا سوچتے ہیں تو یہ وزارت خارجہ کی بہت بڑی ناکامی ہے اور ایک طرح سے اس کی کارکردگی پر فرد جرم بھی ہے۔
وزارت خارجہ انتہائی قابل اور تجربہ کار افسران پر مشتمل ہے اور منیر اکرم بھی ان ہی میں سے ایک تھے۔ وہ وزارت خارجہ کا ایک جگمگاتے ستارہ تھے اور ان کے ساتھی اور ماتحت ان کی کارکردگی کو رشک کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ انہوں نے ایک شاندار اننگز کھیلی اور اب دوسرے قابل افسران کو موقع ملنا چاہیے تھا کہ وہ اپنے تجربے سے ملک کو فائدہ پہنچا سکیں۔ منیر اکرم کو اپنے سابق ساتھیوں کی خواہشات اور آرزوؤں کا زیادہ احساس ہونا چاہیے تھا اور خود سے ہی یہ سفارت سنبھالنے سے معذرت کر لینی چاہیے تھی۔ وہ اگر اس حکومت کی اقوام متحدہ میں کسی قسم کی مدد کرنا چاہتے تھے تو اس کے بہت سارے اور راستے بھی موجود تھے۔
اس طرح کی تعیناتیاں وزارت خارجہ کے قابل افسران کے عزم اور حوصلے پر منفی اثر ڈالتی ہیں۔ اس غیر سنجیدہ اور غیر پیشہ ورانہ سلسلے کو بند ہونا چاہیے کیونکہ اس سے کسی طرح بھی ہمارے قومی مفادات کا دفاع نہیں کیا جا سکے گا اور ہمارے قیمتی وسائل جو وزارت خارجہ کے افسران کی تربیت پر استعمال ہوتے ہیں ان کا احسن استعمال نہیں ہو پائے گا۔