امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات ابھی ختمی مراحل و نتائج پر نہیں پہنچے ہیں۔ البتہ طالبان نے اس صورت فاَئر بندی اور افغان حکومت سے بات چیت کی حامی بھری ہے جب تک امریکی افواج کا انخلاء یقینی نہیں ہو جاتا۔
قطر میں چھ روزہ مذاکرات کے بعد امریکی صدر کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد نے کہا تھا کہ ’کسی بھی بات پر رضامندی تب تک رضامندی تصور نہیں ہوگی جب تک امریکہ کی ہر شرط کو تسلیم نہیں کیا جاتا۔‘
طالبان نے اس شرط کو فی الحال تسلیم کر لیا ہے، کہ وہ امریکی افواج کے نکلنے کے بعد القاعدہ اور داعش جیسی شدت پسند تنظیموں کو افغانستان میں داخل نہیں ہونے دیں گے۔
بی بی سی سے انٹرویو میں طالبان کے قطر دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ وہ داعش کا کام ایک ماہ میں تمام کر سکتے ہیں کیونکہ بقول شاہین کہ وہ کبھی ان کے لیے اتنا بڑا خطرہ نہیں رہے ہیں۔ ساتھ ہی سہیل شاہین نے یہ الزام بھی لگایا ہے کہ داعش کو افغانستان میں امریکہ اور افغان حکومت کی حمایت حاصل رہی ہے۔
طالبان نے بھی یہ شرط رکھی ہے کہ معاہدہ میں افغان حکومت کو شامل نہ کیا جائے، جب کہ افغان حکومت کا یہ کہنا ہے کہ وہ ایسے کسی معاہدہ کو نہیں مانتے جس میں عوام کی منتخب کردہ حکومت شامل نہ ہو۔
یہ ایک مصدقہ سچ ہے کہ طالبان افغان حکومت کو نہیں مانتے آئے ہیں۔ اگرچہ وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ معاہدے کے بعد افغان حکومت سے مذاکرات کریں گے لیکن تجزیہ کار یہ خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ موجودہ حالات میں طالبان اپنے لیے ماضی کی طرح نئی راہیں ڈھونڈ رہے ہیں، تاکہ پھر سے افغانستان پر اپنی حکومت قائم کرسکیں۔ اگر ایسا ہوا تو افغانستان ایک بار پھر خانہ جنگی کا شکار ہو سکتا ہے۔
حالات کچھ ایسے بن گئے ہیں کہ امریکہ افغانستان سے اپنی فوجیں نکالنے کا فیصلہ کر چکا ہے۔ اس جنگ میں اب تک تقریبا 2400 امریکی اور 31000 سے زائد افغان لقمئہ اجل بن چکے ہیں۔ ہزاروں لوگ مختلف جسمانی و نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہو چکے ہیں۔ لاکھوں لوگ بے گھر ہو کر دوسرے ممالک رہنے پر مجبور ہیں۔ امریکہ سالانہ اربوں ڈالرز اس جنگ پر خرچ کر رہا ہے اور کوئی نتیجہ نہیں نکل رہا۔
طالبان چاہتے ہیں کہ امریکہ اگر کسی قسم کے امن مذاکرات کا متمنی ہے تو اس کو فوری طور پر اپنی افواج کو نکالنا ہوگا۔ اور تب ہی وہ کسی بات کو سنجیدہ لے سکیں گے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ طالبان اور افغان حکومت مل کر ایک حکومت بنائیں اور اسے چلائیں جب کہ طالبان افغان حکومت کو مسلسل کٹھ پتلی حکومت کے طعنے دیتے نہیں تھک رہا۔ دونوں میں ایک دوسرے کے لیے رقابت اور نفرت ہے۔ طالبان کو یہ بھی شک ہے کہ امریکہ انہیں دھوکہ دے رہا ہے۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ جب زلمی خلیل زاد نے قطر میں طالبان سے مذاکرات کے بعد غنی حکومت سے بات کی تھی تو اس کے بعد افغاننستان کا سرکاری بیان آیا تھا کہ انہیں فی الحال امریکی افواج کی مدد کی ضرورت ہے۔ جس پر طالبا ن نے بھی بیان جاری کیا کہ یہ امریکہ کی پڑھائی ہوئی پٹی ہے۔
ان تمام نکات کو مد نظر رکھتے ہوئے اگر معاہدہ کسی نتیجے پر پہنچتا بھی ہے تو کس قسم کا منظر نامہ بن سکتا ہے۔ اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے مختلف تجزیہ کاروں سے بات چیت کی ہے۔
رستم شاہ مہمند، سکیورٹی اور افغانستان و وسطی ایشیائی امور کے ماہر
’میں سمجھتا ہوں کہ ایک دفعہ اگر امریکہ اپنی افواج کو نکال دے گا تو طالبان اور افغان حکومت ایک دوسرے سے مذاکرات کرنے، عبوری حکومت و مستقبل کی گورننس پر بات کرنے کے لیے راضی ہو جائیں گے۔ ان کو ایسا کرنا پڑے گا۔ کیونکہ اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا۔ جہاں تک طالبان کے افغانستان میں کنٹرول اور طاقت کی بات ہے، اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ افغانستان میں امریکی قافلہ جب کسی علاقے سے گزرتا ہے تو انہیں طالبان کو ٹیکس دینا پڑتا ہے ورنہ وہ نہیں گزر سکتے۔ افغانستان کے دیہات میں اب بھی طالبان کی مانی جاتی ہے۔ لوگ ان کو ٹیکس دیتے ہیں۔ ان کی عدالتیں ہیں۔ طالبان کے قاضی ہیں۔
’روس اور چین بھی طالبان سےاسی لیے رابطے بڑھا رہے ہیں کہ انہیں معلوم ہے کہ ان کا پلڑا بھاری ہے اور یہ امن لانے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ افیون کی پیداوار کو روک سکتے ہیں۔ اور یہ کہ صرف طالبان ہی داعش کو ہرا سکتے ہیں۔ لیکن وقت آگیا ہے کہ طالبان کو بھی اپنی ماضی کی غلطیوں سے سیکھنا ہوگا۔ صرف طالبان حکومت نہیں کر سکتے ۔ ان کو افغان حکومت کے ساتھ مل کر حکومت کرنا ہوگی۔ لیکن یہ ساری صورتحال امریکہ کے لیے باعث پریشانی بھی ہے کیونکہ اس کے نکل جانے سے روس اور چین کے لیے راہ ہموار ہو جائیگی۔ امریکہ CEPEC اور one road one belt سے بھی خو فزدہ ہے- لیکن دوسری جانب انہیں سالانہ اربوں ڈالرز ایک ایسی جنگ پر خرچ کرنا پڑ رہا ہے جس کا حاصل بھی کچھ نہیں اور جس ملک کی آدھی سے زیادہ آبادی ان کو تسلیم بھی نہیں کر رہی۔‘
اسماعیل خان، سینئر صحافی و تجزیہ کار
’اگر امریکی بغیر کسی سیاسی سمجھوتے کے نکل گئے تو افغانستان میں حالات ابتر ہو جائیں گے۔ سول جنگ چھڑ جائے گی۔ پناہ گزینوں میں اضافہ ہو جائے گا۔ عسکریت پسندوں کو موقع مل جائے گا اپنے مذموم مقاصد کو پورا کرنے کا اور اس سے پاکستان کو بھی نقصان ہوگا۔ اسی لیے کافی عرصہ سے اب پاکستان کی حکمت عملی میں تبدیلی آئی ہے اور اب پاکستان کے لیے افغانستان کا استحکام سب سے اہم ہے۔
’پاکستان میں دہشت گردی کے حوالے سے جو حالات گزرے ہیں اس کے پیش نظر پاکستان کی سکیورٹی پالیسی اس بات کا بھی متقاضی ہے کہ طالبان کی حکومت نہ آئے۔ Power sharing الگ چیز ہے اور حکومت کرنا الگ۔ اس لیے اب پاکستان بھی چاہتا ہے کہ کوئی سیاسی معاہدہ ہو اور پاور شئیرنگ ہو۔ اور ماضی کی طرح افغانستان کو حالات کے رحم و کرم پر نہ چھوڑا جائے۔ بہرحال دوسری طرف طالبان کا خیال یہ ہے کہ وقت ان کے فائدے میں ہے۔’
رحیم اللہ یوسفزئی، سینئر صحافی اور ماہر امور افغانستان
’بات چیت تو ابھی چلتی رہے گی۔ اگر معاہدہ ہوتا ہے تو دونوں جانب سے ایسے کچھ لوگ ہوں گے جو اس معاہدے کے نکات کے خلاف ہوں گے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ طالبان نے شرط ہی یہ رکھی ہے کہ بیرونی افواج کے انخلاء کی صورت میں ہی وہ کسی بات پر آمادہ ہوں گے۔ اس وقت افغانستان میں امریکہ کی 14000 فوج، نیٹو کی 8000 فوج اور کرائے کے بھی 2600 فوجی جنگ لڑ رہے ہیں۔ تو پہلے ان کو نکلنا ہوگا۔
’اگر معاہدے کے بعد یہ اصول طے پا جائیں کہ افغانستان میں جمہوری نظام ہوگا اور ووٹ کے ذریعے اقتدار کی تبدیلی ہوگی تو پھر تو طالبان کو بھی اس میں شامل ہونا پڑے گا۔ اس طرح وہ بھی سیاسی دائرے میں آجائیں گے۔ اگر ایسا ہوا تو یہ ایک بہترین صورتحال ہوگی- لیکن اس سے قبل عبوری حکومت اور کئی معاملات پر بہت اختلافات جنم لینے کا امکان ہے۔‘‘
بریگیڈئیر ایاز خان، دفاعی تجزیہ کار اور افغانستان و سنٹرل ایشیا کے معاملات کے ماہر
’طالبان کا ابھی تک جو حکومتی تجربہ ہے اس میں ان کو اپنی غلطیاں صاف نظر آرہی ہیں۔ انھوں نے جو بنیاد پرستی کا طریقہ اختیار کیا تھا وہ افغانستان کے لوگوں کو پسند نہیں آیا۔ لہذا اب مجبورا ان طالبان کو میانہ روی کا رویہ اختیار کرنا پڑ رہا ہے۔ ان کو ضرور سب کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔ افغانستان کے لوگوں کی ایک آواز ہے کہ وہ امن چاہتے ہیں چاہے وہ کسی کی بھی جانب سے ہو۔ دوسری طرف طالبان بھی اب یہی کہہ رہے ہیں کہ وہ امن چاہتے ہیں اور مزید جنگوں میں الجھنا نہیں چاہتے۔