پاکستان بدھ کو پیرس میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے اہم اجلاس میں منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی امداد روکنے کے حوالے سے اٹھائے گئے اقدامات سے رکن ممالک کو مطمئن کرنے کی کوشش کرے گا تاکہ بلیک لسٹ ہونے سے بچ جائے۔
امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ٹاسک فورس کے ایشیا پیسیفک گروپ نے رواں ماہ پاکستان کی جانب سے کیے گئے اقدامات کا جائزہ لینے کے بعد ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں اسلام آباد کے اقدامات کو ناکافی قرار دیا گیا تھا۔
رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ پاکستان نے دہشت گردوں کی مالی معاونت اور منی لانڈرنگ کی روک تھام کے لیے ٹاسک فورس کی جانب سے دیے گئے 40 نکاتی اہداف میں سے صرف ایک پر مکمل عمل درآمد کیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ باقی 39 اقدامات کو یا تو جزوی طور پر عمل کیا گیا یا انہیں سرے سے نظر انداز کر دیا گیا۔
اس وقت شمالی کوریا اور ایران فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی بلیک لسٹ میں شامل ہیں۔
اگر ٹاسک فورس کے رکن ممالک بدھ کو ہونے والے اجلاس میں پاکستان کے اقدامات سے مطمئن نہ ہوئے تو پاکستان کو بلیک لسٹ قرار دیا جا سکتا ہے اور یہ وزیراعظم عمران خان کے لیے بڑا دھچکہ ہو گا جو ڈوبتی ہوئی معیشت کو بحال کرنے کے لیے قرضے حاصل کرنے اور بیرونی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کی سر توڑ کوشش کر رہے ہیں۔
اس سے قبل ٹاسک فورس کے اجلاس میں پاکستان کو دہشت گردوں کی مالی اعانت اور منی لانڈرنگ پر قابو پانے کی کوششوں پر ملا جلا ردعمل ملا۔ مبصرین کے مطابق پاکستان کے اتحادی اور دوست ممالک چین، ترکی اور ملائیشیا پاکستان کی حمایت کر سکتے ہیں جبکہ اس کا روایتی حریف بھارت پاکستان کو بلیک لسٹ کرانے کے لیے کافی عرصے سے لابنگ کر رہا ہے۔
مبصرین کے مطابق بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے چھ ارب ڈالر اور سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور چین سے بھی اربوں ڈالر کا پیکیج حاصل کرنے کے بعد پاکستان مالی طور پر اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے تاہم بلیک لسٹ ہونے کی صورت میں یہ مزید معاشی زوال کا شکار ہو جائے گا۔
اسلام آباد میں قائم پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کے ڈائریکٹر عامر رانا نے اے پی کو بتایا: ’اگر پاکستان بلیک لسٹ ہو جاتا ہے تو معمول کے مطابق دنیا سے کاروبار نہیں کر پائے گا۔‘
عامر رانا کے مطابق بلیک لسٹ ہونے سے چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے تحت پاکستان میں کئی ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کو بھی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان میں اس منصوبے کو ایک بڑے پیمانے پر ترقیاتی پروگرام کے طور پر پیش کیا گیا ہے جو ملک میں خوشحالی لا سکتا ہے جہاں عوام کی اوسط ماہانہ آمدنی 125 ڈالر ہے۔
عامر رانا نے کہا کہ ’اگر پاکستان کو بلیک لسٹ میں ڈال دیا گیا ہے تو ہر مالی سودے کی باریک بینی سے جانچ پڑتال کی جائے گی اور پاکستان میں کاروبار کرنا مہنگا اور مشکل ہو جائے گا۔‘
انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی قرض دینے والی ایجنسیز، جن میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ، ایشین ڈویلپمنٹ بینک اور عالمی بینک شامل ہیں، پاکستان کو قرض دینے سے انکار کر دیں گی۔
عامر رانا نے یہ بھی کہا کہ پاکستان نے سنجیدگی سے ان دہشت گردی سے منسلک گروہوں کے خلاف حقیقی کارروائی نہیں کی جو اب بھی پاکستان میں نام تبدیل کر کے سرگرم عمل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس مسٔلے سے نمٹنے کے لیے ادارہ جاتی تبدیلیاں بھی نہیں کی گئیں۔
انہوں نے پولیس اور افسر شاہی کی نااہلی، حکومتی بد انتظامی اور فوج اور انٹیلی جنس کے متصادم پالیسیوں کو اس کا ذمہ دار قرار دیا۔
ان کے مطابق ’پاکستان کی سکیورٹی ایجنسیز ابھی تک ان تنظیموں کے ساتھ اپنے تمام تعلقات توڑنے میں ابہام کا شکار ہیں جنہیں وہ طویل عرصے سے ہمسایہ ممالک خاص طور پر بھارت کے خلاف اہم ’اثاثہ‘ کے طور پر استعمال کرتے رہے ہیں۔‘
رانا نے مزید کہا کہ پاکستان نے (دہشت گردوں کے مکمل خاتمے کی بجائے) برے اور بدتر گروہوں کے مابین فرق تلاش کرنے کی کوشش کی۔
’حکام نے لشکر طیبہ جیسے بھارت مخالف گروہوں کو کم خطرناک تنظیموں کے زمرے میں ڈال دیا جبکہ القائدہ، تحریک طالبان پاکستان اور بلوچستان لبریشن آرمی جیسے گروپوں کو دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کیا۔‘
اگر پاکستان کی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ ان گروہوں سے تعلقات توڑنے میں سنجیدہ ہے تو اس کو عملی اقدامات کے لیے جامع منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔
پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے جمعے کو صحافیوں کو بتایا کہ اقتصادی امور کے وزیر حماد اظہر پہلے ہی اجلاس کی تیاری کے لیے پیرس میں موجود تھے۔
پیر کو پاکستان کے سرکاری ٹیلی وژن کے مطابق اظہر نے بدھ سے شروع ہونے والے اہم اجلاس سے قبل پاکستان کا معاملہ ٹاسک فورس کے سامنے پیش کیا۔
دریں اثنا شاہ محمود قریشی نے پڑوسی ملک بھارت پر الزام لگایا کہ وہ پاکستان کو بلیک لسٹ میں شامل کرانے کے لیے لابنگ کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’بھارت نے ہمیں بلیک لسٹ میں شامل کرانے کی پوری کوشش کی۔ خدا کی رضا سے آپ دیکھیں گے کہ ایسی تمام کوششیں ناکام ہو جائیں گی۔‘
دوسری جانب پاکستان نے مبینہ طور پر جون 2020 تک تمام سفارشات کی تعمیل کا وعدہ کرتے ہوئے ٹاسک فورس کے اجلاس میں توسیع کے حصول کے لیے ترکی اور ملائیشیا سے حمایت طلب کی ہے۔