پولیس حراست میں ہلاک ہونے والے رحیم یار خان کے صلاح الدین کے والد نے ’اللہ کی رضا‘ کے لیے ’قاتلوں‘ کو معاف کرتے ہوئے مقدمہ واپس لینے کا اعلان کیا ہے۔
اس سلسلے میں باضابطہ طور پر صلاح الدین کے آبائی گاؤں گورالی کی جامع مسجد میں تقریب منعقد کی گئی جس میں قائم مقام ڈپٹی کمشنر ذیشان حبیب، اسسٹنٹ کمشنر کامونکی شاہد عباس جوتہ سمیت مقامی لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔
نامہ نگار ارشد چوہدری کے مطابق تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صلاح الدین کے والد ماسٹر افضال نے کہا کہ ’ہمیں کسی سے کوئی گلہ نہیں، بیٹے کی موت کا غم کبھی بھلایا نہیں جاسکے گا۔ اللہ کی رضا کے لیے قاتلوں کو معاف کرتا ہوں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہم نے حکومت سے کوئی مطالبہ نہیں کیا، ترقیاتی کاموں کے لیے کیے گئے مطالبات گاؤں والوں کی خواہش ہے جسے پورا ہونا چاہیے۔‘
اس موقع پر قائم مقام ڈی سی ذیشان حبیب نے کہا کہ حکومت ورثا کی شکر گزار ہے اور ’ہم لواحقین کی طرف سے کیے گئے تمام مطالبات پورے کرنے کے پابند ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ پولیس اصلاحات حکومت کا ویژن ہے جس پر ہر صورت عمل کرایا جائے گا۔
یاد رہے کہ کچھ عرصہ قبل صلاح الدین نامی شخص کو مبینہ طور پر بینک کی اے ٹی ایم مشین سے پیسے نکالنے اور کیمرے کے سامنے زبان چڑانے کی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد مقامی پولیس نے حراست میں لیا تھا۔ اس دوران ان کی موت واقع ہوگئی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پولیس تفتیش کے دوران صلاح الدین پر تشدد کی تصاویر اور ویڈیوز بھی منظرِ عام پر آئیں، جن میں وہ پولیس اہلکاروں سے سوال کرتے نظر آئے تھے: ’اِک گَل پُچھاں، مارو گے تے نئیں۔ تُسی مارنا کتھوں سکھیا؟‘ (ایک بات پوچھوں مارو گے تو نہیں، آپ نے مارنا کہاں سے سیکھا؟)
پولیس حکام نے صلاح الدین کی موت کی وجہ دل کا دورہ پڑنا قرار دی تھی۔
بعد میں صلاح الدین کی فرانزک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ موت سے قبل ان پر تشدد ہوا لیکن اسے موت کی سو فیصد وجہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔
پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر فرانزک رپورٹ کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا تھا کہ رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ صلاح الدین کے جسم پر تین سے چار اور چار سے پانچ سینٹی میٹر کے تشدد کے نشانات پائے گئے۔