حال ہی میں حکومت پاکستان نے صوبہ سندھ میں تلور کے شکار کے لیے متحدہ عرب امارات کے ولی عہد محمد بن زاید النہیان سمیت 13 افراد کے اجازت نامے جاری کیے۔ اجازت نامے حاصل کرنے والوں میں متحدہ عرب امارات کے ولی عہد، محکمۂ برداشت کے وزیر نہیان مبارک النہیان، ان کےاحباب اور خلیجی ممالک کے اعلی فوجی افسران شامل ہیں۔
ذیل میں آپ کو بتا رہے ہیں کہ تلور کا شکار عرب شہزادوں کے لیے دلچسپی کا باعث کیوں ہے جس کے باعث ہر سال موسم سرما میں وہ جوق در جوق پاکستان کا رُخ کرتے ہیں اور اس کے پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
تلور میں ایسی کیا خاص بات ہے؟
کہا جاتا ہے کہ تلور کا گوشت کھانے سے جنسی طاقت میں اضافہ ہوتا ہے اس لیے عرب شہزادوں کی یہ مرغوب غذا ہے لیکن عرب شہزادوں کا خیال ہے کہ تلور پرندے کا شکار ان کا ورثہ ہے جو ان کو ان کے آبا و اجداد سے ملا ہے۔ اور اس کو کھیل ہی سمجھا جاتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اپنے آبا و اجداد کے کھیل کو زندہ رکھنے پر وہ فخر محسوس کرتے ہیں۔
تلور کے شکار پر عدالت عظمیٰ نے یو ٹرن کیوں لیا؟
19 اگست 2015 کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے تلور کے شکار پر پابندی عائد کی تھی۔ 23 نومبر 2015ء کو حکومت نے تلور کے شکار پر پابندی کی تجویز کو ناقابلِ عمل قرار دیا اور کہا کہ اس پابندی سے عرب ممالک کے ساتھ تعلقات متاثر ہوں گے۔ جنوری 2016 میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے تلور کے شکار پر عائد پابندی ختم کر دی۔ وفاق کی جانب سے یہ موقف اپنایا گیا کہ تلور کا شکار ملکی خارجہ پالیسی کا حصہ ہے جسے قبول کر لیا گیا۔
تلور کے شکار کے مقامی لوگوں پر کیا اثرات پڑتے ہیں؟
عربی شہزادے ہر سال دسمبر میں تلور کے شکار کے لیے پاکستان آتے ہیں۔عربی شہزادوں کے لیے شکار گاہیں تیار کی جاتی ہیں۔ ہر سال چار کلو میٹر کے احاطے پر عارضی شہر تعمیر کیا جاتا ہے، اس عارضی شہر میں دو سو رہائشی مہمان خانے تیار کیے جاتے ہیں۔ عربی شہزادوں کی معاونت کے لیے ایک ہزار ملازم رکھے جاتے ہیں۔ یہ تمام ملازمین مقامی افراد ہوتے ہیں جن کو روزگار مل جاتا ہے۔ شہزادوں کے چلے جانے کے بعد بھی وہ ایک ہزار ملازم پورا سال تنخواہ سے مستفید ہوتے رہتے ہیں۔ اس صحرا میں پانی کی ترسیل ٹینکروں کے ذریعے کی جاتی ہے۔ صحرا میں مقیم شہر کو جنریٹر کے زریعے بجلی کی فراہمی بھی یقینی بنائی جاتی ہے۔ سکیورٹی کے سخت انتظامات کرتے ہوئے اس عارضی شہر کو خار دار تاروں سے سیل کیا جاتا ہے۔ ان تمام سہولیات کا انتظام میزبان حکومت کے تعاون سے کیا جاتا ہے۔عرب شہزادوں کے جانے کے بعد اس شہر کو مسمار کر دیا جاتا ہے۔ اور سامان کو گودام میں منتقل کر دیا جاتا ہے
تلور کا شکار کیسے کیا جاتا ہے؟
شکار کے لیے صبح کا وقت متعین کیا جاتا ہے۔ تلور کے شکار میں بندوق کا استعمال نہیں کیا جاتا۔ صحرا میں تلور کے شکار کے لیے مقامی افراد گاڑیوں کے آگے پیدل چل کر تلور کے قدموں کے نشان ڈھونڈتے ہیں۔ تلور پکڑنے کے لیے تربیت یافتہ عقابوں کو استعمال کیا جاتا ہے۔ عقاب کی آنکھوں پر غلاف چڑھا کر رکھا جاتا ہے تاکہ وہ وقت سے پہلے شکار پر نہ جھپٹے۔ شکار سے ایک دن پہلے ان عقابوں کو بھوکا رکھا جاتا ہے تاکہ پوری توانائی سے شکار پر جھپٹ سکیں۔ تلور نظر آتے ہی عقاب کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔ عقاب کے پاؤں میں ایک الیکٹرونک چھلا ہوتا ہے جس سے عقاب کی حرکات کا پتہ چلتا رہتا ہے۔ عقاب تلور کی گردن پر حملہ آور ہوتا ہے۔ شکار کیے گئے تلور کے پروں کو مخفوظ کر لیا جاتا ہے تاکہ بعد میں شکار کے لیے عقابوں کی تربیت کے لیے استعمال کیا جاسکے۔
تلور کی افزائش کے لیے کیا اقدامات کیے جا رہے ہیں؟
بین الاقوامی سروے کے مطابق دنیا میں تلور کی تعداد 50 ہزار سے لاکھ کے درمیان ہے جو کہ بہت کم ہے۔ مسلسل شکار سے یہ نسل ناپید ہونے کا خطرہ ہے لیکن عرب شہزادے نہ صرف تلور کا شکار کرتے ہیں بلکہ اس کھیل کو زندہ رکھنے کے لیے اس کی افزائش نسل کے لیے بھی کام کر رہے ہیں۔ پاکستان، متحدہ عرب امارات، قازقستان۔ ترکمانستان، مراکش اور دیگر ممالک میں ہزاروں کی تعداد میں تلور کی افزائش نسل بھی کی جا رہی ہے۔
حکومت پاکستان کو تلور کے شکار سے کیا ملتا ہے؟
ایک تلور کے عوض ایک ہزار امریکی ڈالر۔۔
حکومت پاکستان نے اس ضمن میں نے پرندوں کے شکار کے لیے آنے والوں کے لئے گائیڈلائن جاری کیں۔ جاری کردہ نوٹیفیکیشن کے مطابق نایاب پرندوں کے شکار کرنے والوں کو امریکی ڈالرز میں فیس ادا کرنی ہو گی۔ فیس کے علاوہ شکار کرنے والوں کو متعلقہ علاقے میں ترقیاتی کام بھی کرانا ہوگا۔ تمام متعلقہ صوبوں کو ہدایت دی جاتی ہے کہ اپنے اپنے علاقوں میں ترقیاتی منصوبوں کی نشاندہی کی جائے۔ ثبوت کے طور پر شکار کی جگہ کی پہلے اور بعد کی تصاویر بھی لی جائیں گی۔ شکار کی فیس ایک لاکھ امریکی ڈالرز ہوگی جس میں 100 پرندوں تک شکار کرنے کی اجازت ہو گی۔ اضافی تلور شکار کرنے پر ایک ہزار امریکی ڈالر ادا کرنا ہو گا۔ تلور کا شکار کرنے کے لیے استعمال ہونے والے عقاب پر ایک ہزار ڈالر فیس ادا کی جائے گی، جبکہ تمام شکار کیے گئے پرندوں پر کسٹم ڈیوٹی الگ سے دی جائے گی۔