پاکستانی سیاست میں ویسے تو ابتدا سے ہی مذہبی سیاسی جماعتوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے لیکن اس کے اثرات ماضی کی نسبت دور حاضر میں زیادہ تیزی سے بڑھتے دکھائی دے رہے ہیں۔
ماضی میں پی ٹی آئی، عوامی تحریک اور تحریک لبیک کے دھرنوں کو مذہبی کارڈ کے طور پر استعمال کی وجہ سے شدید تنقید کا نشانہ بنانے والی آج کی اپوزیشن جماعتیں موجودہ حکومت کے خلاف مذہبی سیاسی جماعت جے یو آئی (ف) کے ساتھ کھڑی ہوگئی ہیں۔
اس اقدام کا جمہوری روایات کے تناظر میں شدومد سے دفاع کیا جا رہا ہے جب کہ ماضی میں مذہبی سیاسی جماعتوں کو ساتھ ملا کر اسلام آباد پر چڑھائی کرنے والے آج کے حکمران مذہبی کارڈ کھیلنے کے نقصانات پر روشنی ڈالتے دکھائی دے رہیں ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان، وفاقی وزیر فواد چودھری، شفقت محمود، معاون خصوصی اطلاعات فردوس عاشق اعوان و دیگر عوام کو مذہبی آڑ میں حکومت مخالف تحریک کے نقصانات بتا چکے ہیں۔ ان کے مطابق مدرسوں کے بچوں کو لا کر اسلام آباد بند کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ وہی چیز جو ماضی میں جمہوری حق سمجھا جاتا تھا، اب ممنوع ہے۔
مذہبی کارڈ پر آئین کا سہارا:
جمعیت علماء اسلام (ف) کے مرکزی جنرل سیکرٹری مولانا غفور حیدری نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’مذہب اور سیاست الگ نہیں ہوسکتے کیوں کہ آئین پاکستان بھی اسلامی روایات کا ضامن ہے۔ ختم نبوت پر یقین نہ رکھنے والا غیر مسلم ہے۔ آئین کے مطابق عقیدہ ختم نبوت کی بنیاد پر ہی صدر مملکت یا وزیر اعظم پاکستان بنا جا سکتا ہے۔‘
مولانا غفور حیدری نے کہا کہ اب اپوزیشن پر مذہبی کارڈ کے استعمال کا الزام لگانے والے بتائیں کہ اراکین اسمبلی کے حلف ناموں میں موجود ناموس رسالت کی شق میں مبینہ ردوبدل کا الزام لگا کر سابق حکومت کے خلاف تحریک لبیک سے ملک بھر کو بند اور جلاؤ گھیراؤ کس نے کروایا تھا؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’وفاقی وزیر قانون زاہد حامد کو مستعفی کیوں ہونا پڑا تھا؟ پی ٹی وی پارلیمنٹ اور وزیر اعظم ہاؤس پر حملہ کس لیے کیا گیا تھا؟ سپریم کورٹ کی عمارت پر شلواریں لٹکانا درحقیقت مذہبی کارڈ کا منفی استعمال تھا۔‘
انہوں نے کہا کہ مذہبی سیاسی جماعتیں ایوانوں میں حقیقی طور پر مذہب کی عمل داری کی محافظ ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ وزیر اعظم ہر جگہ مذہب کے نام پر سیاست کی کوشش کرتے ہیں۔ انھوں نے قائد اعظم محمد علی جناح کا حوالہ دیا کہ وہ اپنی تقاریر میں کہتے تھے ’مسلم ہو تو مسلم لیگ میں آؤ پاکستان کا مطلب کیا لاالہ اللہ اور علامہ اقبال کا شعر ہے کہ جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی۔‘
ان سے پوچھا گیا کہ آپ اپنے ڈنڈا بردار رضاکاروں کے خلاف حکومتی کارروائی کا دفاع کیسے کریں گے؟ تو انہوں نے کہا کہ ’حکومت اقتدار چھن جانے کے خوف میں مبتلا ہوچکی ہے۔ ہمارے رضا کار جن کے پاس ڈنڈے بھی ہوتے ہیں 1970سے تربیت لیتے آ رہے ہیں۔ ان کا کام جے یو آئی کے جلسے جلوسوں اور اجتماعات کی سکیورٹی پولیس کے ساتھ مل کر دیکھنا ہے۔ حکومت کو اب اس کا خیال کیوں آیا ہے؟ آئین میں کہاں لکھا ہے کہ مذہبی شہری ملک تباہ کرنے والی حکومت کے خلاف تحریک نہیں چلا سکتے اور اپنی پارٹی کے لوگوں کی حفاظت نہیں کرسکتے؟‘
سیاست میں مذہب کا استعمال کتنا موثر:
پی ٹی آئی پنجاب کے صدر اعجاز چودھری کا کہنا تھا کہ ’ہر دور میں سیاسی تحریکیں مذہبی سیاسی جماعتوں کی شمولیت سے موثر بنائی جاتی رہی ہیں لیکن مولانا فضل الرحمان مذہبی نہیں ہیں۔ ان کی مذہب کے لیے کوئی خدمات نہیں۔ وہ روایتی مولوی ہیں جو مذہب کو ہمیشہ سیاست کے لیے استعمال کر کے لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘
اپوزیشن کے آزادی مارچ سے حکومت کو کیا خطرہ ہے؟
اس سوال پر انہوں نے جواب دیا کہ اگر اپوزیشن کے جلسے جلوسوں اور دھرنوں سے حکومت گرتی تو پی ٹی آئی اور عوامی تحریک کے 126دن کا دھرنا اور پورے ملک میں لاک ڈاؤن سے نواز شریف کی حکومت ضرور ختم ہوجاتی۔ لہذا اپوزیشن بھی سیاسی پوائنٹ سکورنگ کر رہی ہے، چند دن شور شرابے کے بعد معاملہ ختم ہوجائے گا۔ اس سے حکومت کو کوئی خطرہ نہیں۔‘
ان سے سوال کیا گیا کہ مولانا فضل الرحمان کو کسی اشارے کی بازگشت پر کیا کہیں گے؟ انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ’حکومت اور ادارے ایک پیج پر ہیں۔ انہیں نریندر مودی کا ہی اشارہ ہو سکتا ہے۔
انہوں نے کہا ’اپوزیشن قیادت کرپشن کی وجہ سے جیل میں ہے۔ مہنگائی سے بھی مذہبی معاملے کا کوئی تعلق نہیں تو ایسے میں مولانا پتہ نہیں کیا کرنا چاہتے ہیں کون سے مذہب کی خدمت کرنا چاہتے ہیں۔‘
سابق صدر لاہور پریس کلب اعظم چودھری نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’مذہب کے نام پر پاکستانی معاشرے میں بہت بگاڑ پیدا کیا جا چکا ہے اب یہ سلسلہ رکنا چاہیے۔
انہوں نے کہا: ’وزیر اعظم کی جانب سے اقوام متحدہ میں اسلاموفوبیا پر 17 منٹ تقریر کرنے سے ان کی حمایت نہیں کی جا سکتی۔ پاکستان میں دکانوں کے دروازوں پر قادیانی داخل نہ ہوں کے نوٹس، اخبارات میں جمعدار کی نوکری کے لیے مسیحی افراد کی درخواستوں کے لیے اشتہارات، ہندو لڑکیوں کو زبردستی اسلام قبول کروانے کے واقعات اور دیواروں پر کافر کافر شیعہ کافر کے نعروں جیسے نفرت انگیز نعروں کو روکنا ملک کے وزیر اعظم کے لیے پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔ مغربی معاشرے میں اسلاموفوبیا کی وجہ سے نہیں بلکہ اس لیے بھی وزیر اعظم نے ان کے سامنے یہ تقریر کی چونکہ پاکستان میں ان کے اپنے حمایتیوں کے سامنے خود کو اسلام کا چیمپیئن دکھانا مقصود تھا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’مذہب کے نام پر سیاسی، سماجی اور معاشی طور پر کسی کو ٹھیکیدار بننے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے اور عوام میں بھی یہ شعور بیدار ہونا چاپیے کہ مذہب کسی کی جاگیر نہیں بلکہ ہر ایک انسان کا ذاتی عقیدہ ہوتا ہے اس لیے ریاستی ادارے اور قوانین مذہب سمیت ہر معاملے کو بہتر رکھنے کے لیے کافی ہیں۔‘