میشا شفیع، علی ظفر کے خلاف کام کرنے کی جگہ پر ہراسانی کا کیس چلا ہی نہیں پائیں تو کیس کے فیصلے پر ہار جیت کی کیا بحث؟
میشا کی جانب سے علی ظفر پر لگائے گئے الزامات درست تھے یا نہیں؟ اس پر تو کسی عدالت اور فورم نے بحث نہیں کی، نہ ہی ان الزامات کی قانونی تحقیق اور تفتیش ہوئی۔ اب تک کی پیش رفت میں یہ کیس تکنیکی طور پر کام کرنے کی جگہ پر ہراسانی کے زمرے میں آتا ہے کہ نہیں بس اسی نکتے پر بحث ہوئی۔ معزز عدالتیں اس نتیجے پر پہنچیں کہ یہ کیس ’کام کرنے کی جگہ‘ کے تعین میں ناکام رہا ہے، اس لیے اسے کام کرنے کی جگہ پر ہراسانی سے تحفظ کے قانون کے تحت نہیں سنا جا سکتا۔
اس فیصلے کے بعد ریاست کے سامنے ہراسانی سے متعلق بہت سے سنجیدہ سوالات آئے ہیں جیسے کہ اگر کسی شخص کو دورانِ سفر ہراسانی کا سامنا کرنا پڑے، کسی کو دورانِ خریداری ہراساں کیا جائے، اگر کوئی طالب علم اپنی درس گاہ میں ہراساں ہو، کوئی گھریلو ملازمہ ہراسانی کا شکار ہو، یہاں تک کہ کسی کو اس کے اپنے گھر میں ہراسانی کا سامنا کرنا پڑے تو اس کے لیے تحفظ کون فراہم کرے گا؟ کیونکہ معزز عدالتیں اس نتیجے پر پہنچ چکی ہیں کہ کام کرنے کی جگہ سے مراد وہ دفاتر ہیں جہاں کوئی بھی شخص کسی معاہدے کے تحت ملازمت کر رہا ہو۔ جس میں ملازمت کرنے والے اور ملازمت دینے والے کا رشتہ ثابت ہوتا ہو۔
اگر یہ شرائط پوری نہ ہوں تو اوپر بیان کی گئی صورتوں میں ہراسانی کا شکار ہونے پر تکنیکی وجوہات کی بنا پر کیسز کی سنوائی کسی طور نہیں ہو پائے گی۔
ہراسانی کے خلاف تحفظ کا قانون اور پاکستانی معاشرہ
خواتین کو ہراساں کیا جانا دنیا کے کسی حصے میں نئی بات نہیں لیکن پاکستان جیسے معاشرے میں اس فعل کو ایک جرم کے طور پر تسلیم کرنا یقیناً نئی بات ہے۔ پاکستان کے معروضی حالات کو سامنے رکھیں تو ریاستی سوچ میں خواتین کو ہراسانی کے خلاف تحفظ فراہم کرنے کے لیے قانون سازی کی ضرورت محسوس کرنا یقیناً تازہ ہوا کا ایک جھونکا تھا۔ کام کرنے کی جگہ پر ہراسانی کے خلاف تحفظ ایکٹ 2010 میں منظور ہوا لیکن اس قانون کی عمل داری کے حوالے سے عوامی بحث اُس وقت شروع ہوئی جب ہراسانی سے متاثرہ خواتین نے سوشل میڈیا پر آکر اپنے مسائل بیان کیے۔ قانون، تحریری شکل میں جتنی بھی عمدہ دستاویز ہو، اس کی اصل اہلیت اور دائرہ کار کا اندازہ اُس وقت ہوتا ہے جب اس قانون کے تحت مقدمات پر کارروائی کا آغاز ہو۔
ہراسانی سے خواتین کو تحفظ فراہم کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ سماجی سطح پر ہراسانی کو جرائم میں نہ گردانا جانا ہے۔ اس ضمن میں کچھ اہم نکات کا احاطہ کرنے کی کوشش کر رہی ہوں۔
جنسی ہراسانی کیا ہے؟
ہراسانی کے ساتھ لفظ ’جنسی‘ کا اضافہ ہمارے ہاں بہت سے لوگوں کو ابہام میں ڈال رہا ہے۔ ہمارے رجعت پسند معاشرے میں لفظ ’جنس‘ اکثر جنسی تسکین جیسے سابقے اور لاحقے لگا کر استعمال کیا گیا۔ اگر اس لفظ کے انگریزی لفظ ’سیکس‘ کا جائزہ لیں تو پاکستان کے اکثر لوگوں کا اس لفظ سے پہلا تعارف بھارتی اور انگریزی فلموں میں جسمانی تعلقات کے تصویروں سے جڑا ہوا ہے۔ لہٰذا جنسی کا لفظ ذہن میں آتے ہی وہ جسمانی ربط اور تعلق کا تصور کرنے لگتے ہیں۔ اگرچہ اب سوشل میڈیا کی وجہ سے اور کچھ ریاستی اداروں میں جدت پسند رحجانات کے بعد ’سیکس‘ کا لفظ ہمیں مختلف پرفارما میں ’جنس‘ کی معلومات کے خانے میں لکھا نظر آتا ہے۔ یعنی انسان کی ’بیالوجیکل‘ جنس کیا ہے۔ جنس سے مراد یہ ہے کہ کوئی انسان عورت ہے، مرد ہے یا خواجہ سرا ہے۔
اب آتے ہیں اس پہلو کی طرف کہ اس قانون میں جنسی ہراسانی کا لفظ کیوں استعمال ہوا۔ جن لوگوں کی دانش اور کوشش اس قانون کو ڈرافٹ کرنے کے حوالے سے رہی، ان کی کاوش کو سراہنا ضروری ہے۔ اس قانون کا نام ’کام کرنے کی جگہ پر خواتین کو ہراسانی سے تحفظ فراہم کرنے کا ایکٹ 2010‘ ہے۔ سینیٹر شیری رحمان جنہوں نے اس بل کے ڈرافٹ اور منظوری میں کلیدی کردار ادا کیا، ان کے مطابق اس قانون کے تشریح میں ’مرد‘ کا اضافہ اس قانون کے پیش کرنے اور پاس کرانے کی راہ میں حائل پدرسری نے آخری لمحات میں کرایا۔
لہذا اس وقت موجود قانون کی تشریح میں مرد اور خواتین دونوں کا ذکر ہے لیکن بنیادی طور پر اس کا مقصد عورتوں کو ہراسانی سے تحفظ فراہم کرنا تھا۔ اگرچہ میری رائے میں مرد بھی ہراسانی کا شکار ہوتے ہیں مگر وہ اس وجہ سے ہراساں نہیں کیے جاتے کہ وہ مرد ہیں۔ لیکن خواتین کو ہراساں کرنے والے اشخاص 99 فیصد ان کی جنس یعنی عورت ہونے کا غلط استعمال کرنا چاہتے ہیں۔
عورتیں جنسی طور پر کیسے ہراساں ہوتی ہیں؟
اگر ہم چند مثالوں پر نظر ڈالیں تو ہم اس فرق کو سمجھ پائیں گے۔ مثال کے طور پر کیا آپ نے کبھی مردوں کو شکایت کرتے سنا کہ کوئی راہ گیر عورت ان کے کان میں ’سبحان اللہ، ماشاءاللہ‘ یا ’آؤ چلیں سوہنیو‘ وغیرہ بول کر گئی ہوں؟ کیا خواتین معمول میں ایسے جگہ گھیر کر چلتی ہیں کہ مردوں کو اپنا وجود سمیٹ کر اور کبھی کبھی سہم کر ایک طرف ہونا پڑے؟
کیا راہ گیر لڑکیاں مردوں کو ایسے اور اتنا تاڑتی ہیں کہ انہیں زمین تنگ لگنے لگے؟ کیا عام طور پر مردوں کے لباس پر ان کی چال پر ایسے جملے کسے جاتے ہیں کہ وہ اپنا اعتماد کھونے لگیں؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کتنی خواتین عام زندگی میں مردوں کا پیچھا کرتے کرتےان کی گلی کے نکڑ تک آ جاتی ہیں؟ ممکن ہے کہ ہزاروں واقعات میں ایسا کوئی واقعہ حقیقت میں پیش آتا ہو مگر ایک ہزار میں سے 999 واقعات میں صرف خواتین، لڑکیاں اور بچیاں ہراسانی کا شکار ہوتی ہیں۔
مردوں کے برعکس جب بھی کوئی خاتون ملازمت کے لیے، پڑھائی کے لیے، بازار جانے یا ڈاکٹر کے جانے کے لیے گھر سے نکلتی ہے تو راہ چلتی آنکھیں اس کا ایکسرے کرنے لگتی ہیں۔ قطع نظر اس کے کہ وہ خاتون برقع پہنے ہوئے ہے یا چادر اوڑھے ہوئے ہے یا جدید لباس میں ملبوس ہے۔ اس بات سے بھی کم ہی فرق پڑتا ہے کہ وہ خاتون اکیلی ہے یا خاندان کا کوئی فرد اس کے ساتھ ہے۔ 99 فیصد عورتیں ’تاڑنے‘ یعنی مسلسل ایسے انداز میں دیکھے جانے کا سامنا کرتی ہیں جس سے وہ کوفت، الجھن اور کبھی کبھی خوف کا شکار ہونے لگتی ہیں۔ اگر کوئی مرد کسی خاتون کا پیچھا کرنے لگ جائے تو وہ عورت ممکنہ خطرات سے ڈر جاتی ہے کہیں وہ اغوا نہ ہو جائے، کہیں وہ زیادتی کا شکار نہ بن جائے کیونکہ ایسے واقعات حقیقت میں پیش آچکے ہیں۔
کیا عام صورت حال میں مردوں کو خواتین کی طرف سے جنسی زیادتی کا شکار ہونے کا ڈر رہتا ہے؟ اس سوال کا جواب میں قارئین پر چھوڑ دیتی ہوں۔ لیکن یہ سب مثالیں بہت وضاحت سے یہ بیان کرتی ہیں کہ خواتین کو ’عورت‘ یعنی اس کی جنس کی وجہ سے ہراساں کیا جاتا ہے۔ اس لیے یہ جنسی طور پر ہراساں کیا جانا ہے۔ اب دوبارہ اس سوال کا جائزہ لیتے ہیں کہ ’جنسی ہراسانی کیا ہے؟‘ کسی بھی انسان کو اس کی جنس کی بنیاد پر ہراساں کیا جائے، یعنی عورتوں کو عورت ہونے کی وجہ سے ایسے رویوں کا سامنا کرنا پڑے جس سے وہ ہراساں محسوس کریں۔ اسی طرح خواجہ سرا اور ہیجڑے بھی اس لیے تضحیک کا نشانہ بنتے ہیں کہ وہ تیسری جنس کے ’انسان‘ ہیں۔
جنسی ہراسانی کا مطلب اکثر اوقات محض یہ لیا جاتا ہے کہ کسی عورت کو جسمانی طور پر چھوا گیا ہے، اسے جسمانی نقصان پہنچانے یا زور زبردستی کرنے کی کی کوشش کی جائے تب ہی وہ ’جنسی ہراسانی‘ ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس بڑی سادہ اور آسان ہے۔ خواتین کو راہ چلتے اس لیے چھیڑا جاتا ہے کہ وہ خواتین ہیں۔ خواتین کے جسم، کپڑوں، چال پر جملے کَسنا، تاڑنا، فون پر بغیر دعوت یا اجازت کے پیغامات بھیجنا، خواتین کے کردار پر قیاس آرائیاں کرنا، خاتون کو گزرتے ہوئے چھونے کی کمینی کوشش کرنا اور زبردستی خاتون کو چھو لینے تک سب ’جنسی ہراسانی‘ میں شامل ہیں۔
ہراسانی کے کیسز اور طاقت کا زاویہ
حال ہی میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے معزز چیف جسٹس کی طرف سے ہراسانی کے ایک کیس پر فیصلے میں یہ مشاہدہ سامنے آیا کہ ہراسانی کے خلاف قانون صرف ’جنسی ہراسانی‘ کے خلاف بنا تھا اور انتظامی معاملات میں مبینہ ہراسانی کو اس سے الگ رکھا جائے۔ جنسی ہراسانی کے حوالے سے اوپر بیان کی گئی تفصیل اس کی وضاحت کے لیے کافی ہے۔ معزز عدالتوں کی طرف سے آئے مشاہدے میں یہ تاثر ملتا ہے کہ جنسی ہراسانی کو جسمانی ہراسانی کے ساتھ کنفیوز کیا جا رہا ہے۔ اس سے متاثرہ خواتین کو ناقابلِ تلافی نقصان ہوگا اور انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوں گے۔
قانون کی مکمل قانونی تعریف کے جائزے کے ساتھ ساتھ زمینی حقائق سے آگہی بھی لازم ہے۔ کام کرنے کی جگہ پر ہراسانی کے خلاف قانون بنانے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ اگر انتظامی اختیارات کے لامحدود استعمال پر کسی روک ٹوک کی ضرورت نہیں تھی۔ اس ضمن میں مودبانہ گزارش یہ ہے کہ متعلقہ اداروں میں درج کی گئی شکایات میں اتفاق ہے کہ 99 فیصد ہراساں کرنے والے مرد ہیں اور زیادہ تر متاثرہ خواتین کے براہ راست افسر (باس) یا ادارے میں متاثرہ خواتین کے سینیئر ہیں۔
اگر کسی خاتون نے اپنے باس کی طرف سے کی گئی چائے کی پیشکش رد کر دی، نامناسب اوقات میں فون کال کا جواب نہیں دیا، قربت کی خواہش یا کوشش سے پہلو تہی برتی اور نامناسب جملوں اور لطائف پر ناگواری کا اظہار کیا ہو یا جسمانی پیش رفت پر انکار کیا ہو تو اس باس کے پاس اپنے اختیارات ہی ہیں جس سے وہ اس خاتون کے انکار پر اسے سبق سکھا سکے؟
جیسا کہ اسائنمنٹس کو مشکل کرنا اور کام کے ماحول کو تکلیف دہ بنانا وہ عام شکایات ہیں جو ان کیسز میں خواتین بیان کرتی ہیں۔ اسی طرح طاقت کے ساتھ جڑے دیگر عناصر کو دیکھنے کی بھی ضرورت ہے۔ شکایت کی صورت میں ادارہ اور ادارے میں انتظامی ڈھانچہ اپنے سینیئر کا ساتھ دیتے ہیں۔ اس ضمن میں روایتی پدرسری کا عنصر بہت کم ملوث ہوتا ہے کیونکہ خواتین بھی متاثرہ خاتون کے بجائے اُس شخص کا ساتھ دیتی ہیں جو کام کرنے کی جگہ پر ایسی طاقت رکھتا ہے، جس سے وہ ان کا کام کرنا متاثر کرسکے یا مشکل بنا دے۔ لہذا معزز عدالتوں سے گزارش ہے کہ اس قانون کے حوالے سے تاثرات کے اظہار میں معاشرتی حساسیت کو بھی ملحوظ رکھا جائے۔
قانونی تعریف کے مطابق اس قانون کے تحت خواتین کی تکریم کے خلاف کوئی بھی عمل، کوئی نامناسب بات، جملہ، اشارہ اور ایسے ذاتی نوعیت کے تقاضے (فرمائشیں) قابل سزا جرم ہیں جس سے وہ عورت آرام دہ محسوس نہ کرے۔ ساتھ ساتھ یہ بھی وضاحت ہے کہ ان تمام قابل اعتراض حرکات پر انکار کی صورت میں ہراساں کرنے والے شخص کی طرف سے اپنی اتھارٹی یعنی طاقت کے ناجائز استعمال سے خاتون کے کام کو متاثر کرنے کی کوشش بھی جرم ہے۔
صرف مرد اور عورت کی ہراسانی کے خلاف قانون کیوں؟
ایک اور اہم نکتہ اس قانون کی تعریف میں مرد اورعورت کا ذکر ہے جس کی وجوہات کا تذکرہ میں نے سرسری طور پر اوپر بھی کیا ہے۔ اگر وفاقی اور صوبائی محتسب کے پاس درج ہونے والی شکایات کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ خواتین کے ساتھ ساتھ ہراسانی کے خلاف مردوں نے بھی شکایات درج کی ہیں۔ ماہرین کی رائے ہے کہ اس قانون کی تشریح میں مرد اور عورت کی بجائے ’کسی بھی شخص یا پرسن‘ کا اضافہ ہونا چاہیے تا کہ خواجہ سرا بھی اس قانون سے مدد لے سکیں۔
کام کی جگہ سے کیا مراد ہے؟
اس قانون کی عملداری میں گذشتہ دس سالوں میں اہم اور پیچیدہ تکنیکی مسائل بھی درپیش آئے۔ اس حوالے سے سب سے ذیادہ رہنمائی پورے ملک سے ہراسانی کے خلاف درج کی گئی شکایات سے ملتی ہے۔ اگر اس قانون کے عنوان (ٹائٹل) کو دیکھا جائے تو بنیادی طور پر یہ قانون ’کام کرنے کی جگہ‘ پر خواتین کو ہراسانی سے تحفظ فراہم کرنے کی بات کرتا ہے۔ اب کام کرنے کی جگہ سے مراد ملازمت کی جگہیں ہیں جہاں ’ملازمت کرنے والے اور ملازمت دینے والے‘ کا پکا یا عارضی معاہدہ موجود ہو۔ یہ معاملہ پہلی بار اُس وقت سامنے آیا جب 2014 میں ایک یونیورسٹی کی طالب علم نے ہراسانی کے خلاف شکایت درج کرانے کی کوشش کی تو قانون کے مطابق درس گاہ کام کرنے کی جگہ کے زمرے میں نہیں آتی۔ یہ ہی مسئلہ میشا شفیع کے کیس کا تھا جب ہراسانی کے خلاف شکایت کی تو ان کے معاملے میں بھی ان کا ایسے کانٹریکٹ پر نہ ہونے کی وجہ سے ان کے کیس کو صوبائی محتسب اور لاہور ہائی کورٹ میں ہراسانی کے قانون کے تحت نہیں سنا جا سکا۔
ادارہ جاتی انکوائری کمیٹیاں کتنی مؤثر؟
اس قانون کے تحت تمام سرکاری، غیر سرکاری اداروں میں ہراسانی کی شکایات سننے کے لیے ادارہ جاتی تفتیشی کمیٹیاں بنانا لازم قرار دیا گیا۔ ابھی تک اس قانونی تقاضے پر مکمل عمل نہیں ہوا مگر پھر بھی کافی اداروں میں یہ کمیٹیاں تشکیل دے دی گئی ہیں۔ صرف کمیٹیاں بنانے سے مسئلہ حل ہوتا نظر نہیں آتا۔ اب تک ادارہ جاتی کمیٹیوں نے ہراسانی کی شکایات پر جتنے فیصلے کیے ان کی تفتیش کے عمل میں واضح جانبداری کے شواہد نظر آتے ہیں۔ یہاں دوبارہ اس بات پر زور دینا ضروری ہے کہ طاقتور کے ساتھ عموماً اداروں کی انتظامیہ گٹھ جوڑ کر لیتی ہے اور ادارے کی بدنامی سے بچنے کے لیے ایسے انداز میں انکوائری کی جاتی ہے کہ متاثرہ خواتین کو سنگین نتائج بھگتنے پڑیں۔ خواتین کے لیے ایسے حالات پیدا کیے جاتے ہیں کہ وہ تنگ آ کر یا تو خود ہی ملازمت کو خیر باد کہہ دیں یا انہیں مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ عدالتوں کے باہر ہی صلح صفائی کرکے نوکری بچا لیں۔
ہراسانی کے قانون کے دس سال!!
اس قانون کو بنے تقریباً دس سال ہو چکے ہیں، یہ یقیناً درست وقت ہے کہ اس قانون کی عملداری کی راہ میں حائل ہونے والے تکنیکی مسائل کا ایک جائزہ لیا جائے اور معلوم کیا جائے کہ اس قانون میں ایسے کیا سقم ہیں، جن کو دور کر کے اس قانون کو زیادہ مؤثر بنایا جا سکتا ہے۔ بالخصوص ان افراد کو جو ایسے شعبوں سے وابستہ ہیں جہاں روایتی ملازمت کے معاہدے کا وجود نہیں ہوتا۔ ان کو کیسے ہراسانی سے تحفظ فراہم کیا جاسکے۔
انٹرنل انکوائری کمیٹیاں کیسے غیر جانبدار اور آزادانہ کام کریں، اس حوالے سے بھی سوچ بچار کی ضرورت ہے۔