شام میں داعش کے خلاف جاری امریکی ایکشن ’آپریشن انہیرنٹ ریزالو‘ کے ایک عہدیدار نے تصدیق کی ہے کہ شام سے فوری انخلا کے بعد امریکی فوج نے اپنے ہی زیر استعمال رہنے والے ایک اڈے پر بمباری کر کے اسے تباہ کر دیا۔ ایسا ترکی کی حمایت یافتہ ملیشیا کے اس اڈے کے قریب آنے کے بعد کیا گیا۔
ایک ترجمان کے مطابق عین العیسا اور کوبانی کے درمیان واقع لفارج سیمنٹ فیکٹری میں موجود اس اڈے کو جنگی طیاروں نے امریکی فوج کے انخلا کے چند ہی گھنٹوں بعد صفحہ ہستی سے مٹا کر رکھ دیا۔
اسی ماہ کے آغاز میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خطے سے اپنی فوج نکالنے کا اعلان کیا تھا جہاں امریکی فوج کرد سربراہی میں قائم سیرین ڈیموکریٹک فورسز (ایس ڈی ایف) کی داعش کے خلاف جنگ میں مدد کر رہی تھی۔
امریکی فوج کے انخلا کے بعد ترکی نے شام کے کرد اکثریتی علاقوں میں فوجی کارروائی شروع کر دی تھی جس پر بڑے پیمانے پر تنقید کی جا رہی تھی۔ امریکی حکمران جماعت ری پبلکن اور حزب اختلاف کی جماعت ڈیموکریٹ دونوں نے امریکی صدر کے خلاف مذمتی قرار کی حمایت کی تھی۔
اس سے پیدا ہونے والے خلا کو پُر کرنے اور ترکی اور شام کی سرکاری فوج کو ایک دوسرے سے دور رکھنے کے لیے روس بھی اپنی فوج اس علاقے میں تعینات کر چکا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بدھ کو سامنے آنے والی ایک ویڈیو میں روسی فوجیوں کو منبج کے اہم علاقے میں امریکی فوجی اڈے میں داخل ہوتے دیکھا جا سکتا ہے۔
آپریشن انہیرینٹ ریزالو کے ترجمان کرنل مائلز کیگینز نے اپنے زیر استعمال رہنے والے اڈے پر امریکی بمباری کے حوالے سے ٹوئٹر پر لکھا: ’اتحادی فوجوں نے شمالی شام کے علاقے سے اپنی مرضی سے انخلا کیا ہے۔ 16 اکتوبر کو ہم نے لفارج سیمنٹ فیکٹری، رقہ اور تبقہ کے علاقے چھوڑ دیے ہیں۔‘
پانچ گھنٹوں بعد انہوں نے لکھا: ’16 اکتوبر کو اتحادی افواج اور ضروری فوجی سامان کو نکالنے کے بعد دو اتحادی ایف 15 ایز جنگی طیاروں نے لفارج سیمنٹ فیکٹری پر بمباری کی تاکہ وہاں موجود اسلحہ ڈپو کو تباہ کیا جا سکے اور اڈے کو فوجی استعمال میں نہ لایا جا سکے۔‘
کانگریس میں ری پبلکن پارٹی کے رکن ایڈم کیزنجر نے ایک ٹویٹ میں کہا: ’ہم نے اپنے فوج اڈے کو تباہ کر دیا کیونکہ صدر ٹرمپ کے یکدم کیے گئے فیصلے کی وجہ سے ہم درست طور پر انخلا نہیں کر سکے۔ کیا یہ وہی امریکہ ہے جس پر ہم یقین رکھتے ہوئے بڑے ہوئے تھے؟‘
یہ حملہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب صدر ٹرمپ نے صدر اردوغان کو لکھا گیا خط شائع کیا تھا۔
یہ خط نو اکتوبر کو لکھا گیا جس میں ترکی کو شام میں کارروائی نہ کرنے کا کہا گیا ہے۔ ترکی ایک نیٹو اتحادی ملک ہے۔ رپورٹس کے مطابق یہ غیر معمولی دستاویز صدر اردوغان نے فوری طور پر ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا تھا۔
خط میں انہیں ایک ہی وقت میں لبھایا اور دھمکی دی جا رہی تھی۔ صدر ٹرمپ نے خط میں لکھا تھا: ’چلو معاملے کو حل کرتے ہیں۔ آپ ہزاروں لوگوں کو قتل کرنے کی ذمہ داری نہیں لینا چاہیں گے اور میں ترکی کی معیشت کو تباہ نہیں کرنا چاہوں گا جو کہ میں کر سکتا ہوں۔‘
انہوں نے مزید لکھا: ’تاریخ آپ کو اچھے الفاظ میں یاد کرے گی اگر آپ اس کو بہتر انداز میں حل کرتے ہیں۔ اگر آپ ایسا نہیں کرتے تو تاریخ آپ کو شیطان کے طور پر یاد رکھے گی۔ زیادہ سخت انسان بننے کی کوشش نہ کریں۔ بے وقوف مت بنیں۔‘
جمعرات کو ترکی کے صدر کی ساتھ امریکی نائب صدر مائیک پینس اور وزیر خارجہ مائیک پومپیو کی ملاقات طے تھی تاکہ انقرہ کو اس کارروائی سے روکا جا سکے۔
© The Independent