(طاہر شبیر کی دسمبر میں شادی ہونے والی ہے۔ وہ اس بارے میں ہر ہفتے ہمیں اپنے تجربات سے آگاہ کریں گے)
’میرا بیٹا بہت سمجھ دار، بہت محنتی ہے، اتنی سی عمر میں ہی نوکری کرنے لگا، گھر کا سہارا بن گیا، اس نے تو پڑھائی کے ساتھ ساتھ نوکری کر کے ہم سب کے دل جیت لیے۔‘
پیاری والدہ نے مجھ ناچیز کی اتنی تعریف کر کے مجھے اس قدر حیران کر دیا کہ میرا دل خود اپنے آپ سے ملنے کو مچل گیا۔
یہ نو جولائی کی شام تھی۔ میں بے انتہا خوش مگر نروس بھی تھا۔ میری شادی کے لیے عملی اقدامات کا آغاز ہو چکا تھا۔ میں اپنی والدہ اور بڑے بھائی کے ہمراہ اپنے ہونے والے محترم سسر اور ساس کے سامنے بیٹھا تھا اور ہم رشتہ لے کر آئے تھے۔
آج مجھے سب کچھ بہت مختلف لگ رہا تھا، یہاں آنے سے پہلے میں اسما (میری ہونے والی بیوی) سے کہہ رہا تھا کہ یہ سب مراحل رسمی، مگر ضروری ہیں اور میں ان مراحل سے نہیں گزرنا چاہتا، وہ اس معاملے پر میری ہم خیال تھی۔
یہ محفل میری گرل فرینڈ کو میری بیوی بنانے کے لیے سجائی گئی تھی اور میں یہاں بیٹھا سب کے چہرے دیکھتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ گرل فرینڈ کہنا اور بنانا جتنا آسان ہے، اُسے بیوی بنانا اتنا ہی مشکل۔ نہ جانے کس کس مرحلے سے گزرنا ہو گا۔ عشق کے امتحاں شروع ہو چکے تھے، مجھ روشن خیال کو یہ رسمی ملاقاتیں بوجھ محسوس ہو رہی تھیں مگر اس سب سے اپنے معاشرے کو سمجھنے میں بہت مدد مل رہی تھی۔
ملاقات جاری تھی اور آغاز میں کہنے کو کچھ نہ تھا۔ بھلا ہو موسم کا۔ ہم پاکستانی موسم کے حال سے بات شروع کر کے ماحول کو گفتگو کے لیے سازگار بنا لیتے ہیں۔ اس روز مجھے اندازہ ہوا کہ موسموں کی ایک اہمیت یہ بھی ہے۔
بہرحال میری تعریف سننے کے بعد یہ بہت ضروری سمجھا گیا کہ اسما کی تعریف بھی کی جائے، لہٰذا سسر جی نے اپنی صاحبزادی کی تعریفوں کا آغاز کیا اور اس کی خوش مزاجی سے لے کر کھانا بنانے اور صفائی پسندی تک سبھی صلاحیتیں گنوا دیں۔
میری اور میری ہونے والی بیوی کی تعریفیں سن کر مجھے لگ رہا تھا جیسے یہ بیوپاریوں کے سودے کی ملاقات ہے اور ڈیل سے پہلے دونوں جانب سے اپنے اپنے بکرے بکری کی خصوصیات بتائی جا رہی ہوں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مجھے اس سب کے بعد انسان کے سوشل اینیمل ہونے پر یقین ہو گیا کہ ہم صورت حال کے مطابق طرزِ عمل دکھاتے ہیں۔ میں اپنے سسر کی گفتگو سننے لگا تاکہ ان کو احساس دلا سکوں کہ آپ کی بیٹی کو کیا کمال کا لڑکا مل رہا ہے۔
میں نے تاثر لیا کہ میرے سسر جی بہت نفیس، نپے تلے الفاظ اور بامعنی و با مقصد گفتگو کرنے والے انسان ہیں اور یہ تاثر آج تک قائم ہے۔ یہاں سسر کی تعریف کرنا دو وجوہات کی بنا پر ناگزیر ہے۔
اول تو یہ کہ واقعی وہ ان تمام خصوصیات کے حامل ہیں۔ دوم یہ کہ تعریف نہ کی تو میری ہونے والی بیوی تحریر پڑھ کر ناراض ہو سکتی ہے کہ ان کے والد محترم کا تذکرہ ہوا مگر تعریف کیوں نہ ہوئی؟
سسر کی تعریف کرنے کے بعد میں سوچ رہا ہوں کہ بیوی کی تعریف تو اس سے بھی ضروری ہے مگر وہ الفاظ میں کہاں ممکن، یا اس تحریر میں بھلا کیسے سمو سکتا ہوں، مرنے سے پہلے کتاب لکھوں گا۔ مگر یقین کریں وہ کتاب بھی کم ہو گی اور اہلیہ اس سے بھی کچھ بڑھ کر چاہتی ہوں گی۔
بہرحال میں سسر جی کو یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہا تھا کہ میں ان کی گفتگو بہت غور سے سن رہا ہوں مگر ان کے دھیمے بولنے اور مجھ سے فاصلے پر بیٹھنے کے باعث میں ان کو ٹھیک سے سن نہیں پا رہا تھا۔ ان کی گفتگو کا 40 فیصد حصہ ایسا تھا جسے سنے اور سمجھے بغیر ہی ردعمل دے دیتا۔
یہ اندھیرے میں تیر چلانے کے مترادف تھا۔ کبھی وہ میرے ردعمل پر حیران ہونے لگتے تو میں فوراً ہی اس کا متضاد ردعمل دے دیتا اور ان کے چہرے پر اطمینان (جو ان کے من چاہے ردعمل سے ان کو ملتا) کو اپنی چھوٹی سی فتح سمجھ کر میں دل ہی دل میں خوش ہوتا۔
لیجیے بیٹی بھی آ گئی۔ میری ہونے والی بیوی تشریف لا چکی تھیں، ان کی آمد کے ساتھ ہی مجھے ایک اور امتحان کا سامنا تھا۔ میرا زندگی کا 26 سال کا تجربہ ہے، کس کو کب کس نظر سے دیکھنا ہے، آئی کانٹیکٹ کی سائنس سمجھتا ہوں مگر اس وقت میں بوکھلا گیا۔
بہن کو کس نظر سے دیکھنا ہے؟ مجھے اچھے سے معلوم ہے۔ خاتون کولیگ کو کیسے دیکھنا ہے؟ مال میں شاپنگ کرتی بچیوں کو کیسے تاڑنا ہے یا اپنی گرل فرینڈ کو کیسے دیکھنا ہے، مجھے سب آتا ہے۔
مگر یہ تجربہ نیا تھا کہ میں جس لڑکی کا رشتہ دیکھنے آیا ہوں، میری ہونے والی بیوی، اس کو اپنے سسر، ساس، والدہ اور بڑے بھائی کے سامنے کس نظر سے دیکھوں؟ میرا ذہن ایک سوالیہ نشان بن کر بوجھل ہو رہا تھا۔ کیسے دیکھوں، کیا بولوں؟
مجھ پر بہت سے سوال حملہ آور ہو چکے تھے۔ مجھے یہ تاثر دینا تھا کہ میں کبھی اپنے سسر کی بیٹی سے باہر نہیں ملا، ہم ایک دوسرے کو زیادہ جانتے بھی نہیں۔ یہ تاثر بھی نہیں دینا چاہتا تھا کہ میں بہت ترسا ہوا ہوں کہ باپ کے سامنے اس کی بیٹی کو تاڑ رہا ہوں۔ یہ بھی نہیں کہ جعلی شرمیلا پن چھلکے، نہ بہت پراعتماد۔
ذہن کشمکش میں تھا کہ میری ہونے والی بیوی کرسی پر بیٹھنے لگی۔ میں نے نظریں ملاتے ہوئے، سر ہلاتے ہوئے، سارا اعتماد اپنے آپ پر طاری کیا اور دماغ کا مکمل استعمال کرتے ہوئے سلام ٹھوک دیا۔ سلام کے جواب نے مجھے حیران، شرمندہ، پریشان اور نہ جانے کیا کیا کر دیا۔
جواب میں مجھ پر انکشاف ہوا کہ وہ مجھ سے زیادہ بوکھلاہٹ کا شکار ہے کیونکہ محترمہ نے مجھے کوئی جواب نہ دیا اور ایسے نظر انداز کیا جیسے میرا سلام اس تک پہنچا ہی نہیں۔ سارا امپریشن برباد!
دوران گفتگو اسما نے لاکھ چاہا کہ کچھ بات کرے اور وہ بھی گفتگو کا حصہ بنے مگر نہ بول سکی۔ حال احوال کے بعد وہ چپ چاپ بیٹھی رہی۔ اس ملاقات میں مجھے اس کی خاموشی سے کئی بار ایسا لگا کہ وہ مجھ سے ناراض ہے۔ میں اندازے لگاتا رہا کہ وہ ناراض ہے یا نہیں۔
یہ بھی بہت بڑا مسئلہ ہے۔ زیادہ حساس اور پیار کرنے والا شوہر بیوی کی باڈی لینگویج، الفاظ، لہجے اور کبھی کبھی نظروں سے بھی اندازہ لگانے کی کوشش کرتا ہے کہ کہیں بیگم صاحبہ ناراض تو نہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جب شوہر کو لگے کہ بیوی ناراض ہے تو وہ ناراض نہیں ہوتی۔ جب اسے لگے کہ بیوی ناراض نہیں تو وہ ناراض نکلتی ہے۔ ستم تو یہ کہ وہ ناراضی اس وقت اور بھی بڑھ جاتی ہے جب وہ یہ سوچ کر ناراض ہو جاتی ہے کہ یہ کیسا پیار ہے کہ تم میری ناراضی تک کا اندازہ نہیں لگا سکتے۔ پریشان نہ ہوں ان مسائل کا حل بھی لکھ رہا ہوں۔
مسئلہ اور ان کے حل کے نسخے حاضرِ خدمت ہیں۔
مسئلہ نمبر ایک: گھر والوں کے سامنے، وہ لڑکی جس سے آپ مل چکے، ڈیٹ مار چکے، اس سے نظریں کیسے ملائیں؟
نسخہ: نو آئیڈیا۔ بھلا ایسے سوالوں کے جواب بھی ملے ہیں کبھی؟ یہ سوالوں کی برمودا ٹرائی اینگل ہے۔ البتہ جب آپ بیٹی کے باپ بنیں گے تو معلوم ہو جائے گا
مسئلہ نمبر دو: سسر سے گفتگو میں کھل کر بات کی جائے یا شرمایا جائے؟
نسخہ: ہرگز نہیں۔ زیادہ سیانے نہ بنیں۔ وہ بھی اس کیفیت سے گزر چکے ہیں اور سب جانتے ہیں
مسئلہ نمبر تین: کھانا کتنا کھایا جائے؟
نسخہ: اتنا کہ کھانے کے بعد گفتگو میں آپ کے الفاظ آپ کی ڈکار میں الجھنے نہ لگیں۔ مزید مشورے آئندہ قسط میں۔