جاڑے کا موسم۔ میرے آبائی شہر لاڑکانہ میں سائبیریا کی سرد، خشک ہواؤں کا بسیرا۔ بچپن کے دن، ہم سب کمبلوں میں لپٹے ہوئے اور رات ڈھلتے ہی نانا جنہیں ہم بابو جی پکارتے تھے ان کی قصہ گوئی۔ الف لیلیٰ ہزار داستان، طلسم ہو شربا کے قصوں کی دنیا میں ہم سب گم سم۔
سلطنتوں کے عروج و زوال، بادشاہوں، شہزادوں کی بہادری، جادوگروں کی طلسماتی کہانیاں۔ ان دنوں ہماری منتشر سیاست اور منڈلاتے ہوئے خطرات سے مجھے اپنے بچپن کی ایک طلسماتی کہانی یاد آتی ہے۔
قصہ بوڑھے جادوگر کا، جس نے سلطنت کے گرد حصار کھینچا ہوا تھا۔ بادشاہ محل میں حیران پریشان، شہزادے کا پتھر کے مجسمے میں تبدیل ہونا۔ دھیرے دھیرے جادوگر کے جادو کا اثر پھیلتا ہوا۔ خطرات کے بادل منڈلاتے ہوئے۔ جادوگر کی چیلوں کے ساتھ پیش قدمی۔ محل میں بادشاہ اور اس کے حواری جادوگر کو شکست دینے کے منصوبوں میں مصروف۔
سلطنت میں اَن دیکھے طاقتور دیوتا بھی موجود۔ ان کا غصہ اور رضامندی بادشاہ اور جادوگر دونوں کے لیے اشد ضروری۔ طلسم کا توڑ کسی کے پاس نہیں۔ دانا، درویش صفت لوگوں کی بیٹھک۔ پتا چلا کہ جادوگر کی جان سونے کے پنجرے میں قید طوطے میں ہے۔
پنجرے کی رسائی تاریک، دشوار گھاٹیوں سے ممکن۔ یوں سمجھ لیجیے موت کی وادی سے گزرنے کے مترادف۔ جادوگر کے سحر کو توڑنے کا سفر۔ جان جوکھوں کا سفر۔
اس وقت مولانا فضل الرحمٰن مجھے کہانی کے جادوگر کی یاد دلاتے ہیں۔ ان کے دھرنے اور سیاسی زندگی کی جان اس وقت پنجرے میں بند، اس طوطے یعنی سابق وزیر اعظم نواز شریف میں ہے۔
شدید علیل ہیں (اللہ انہیں صحت یابی عطا فرمائے) اگر نواز شریف کو کچھ ہوتا ہے تو مولانا کے دھرنے اور سیاسی عزائم کی بساط بکھر جائے گی۔ سب کچھ دھرے کا دھرا رہ جائے گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مولانا کے سیاسی خیمے میں دعاؤں کا سلسلہ جاری۔ اردگرد سر پر پگڑیوں، کاندھوں پر صافا یا رومال، مولانا کے رفقا مولوی حضرات کا گھیرا۔ ٹکٹکی باندھ کر نواز شریف کی صحت سے متعلق بلیٹن پر نظریں مرکوز۔ پریشانی میں اضافہ کیونکہ مولانا اور نواز شریف کے درمیان براہ راست پیغام رسانی کے رابطے منقطع ہوگئے ہیں۔
ہر پیغام بلاواسطہ یعنی ن لیگ کے مفاہمتی ’گاڈ فادر‘ شہباز شریف کے مفاہمتی سکین سے گزر کر بڑے بھائی تک پہنچتا ہے۔ مفاہمتی حصار کی وجہ سے قوم پرست بلوچ رہنما، پرویز رشید کی دوریاں۔ کیپٹن صفدر براہ راست پیغام رسانی کے حادثے کا شکار ہوئے۔ اس وقت نظر بندی کاٹ رہے ہیں۔ اندر ہسپتال میں دواؤں کے دور اور دعاؤں کے ورد جاری ہیں۔
شہباز شریف اور ان کی سیاست ایک دوراہے پر، بھائی کی سلامتی کے لیے دعاگو لیکن اپنی سیاست کی بقا کے خواہش مند بھی۔ بھائی کے بیرون ملک روانہ ہونے کی خواہش، ورنہ شہباز شریف بے جان سیاسی زندگی کی دوڑ تھامے نظر آئیں گے۔
نواز شریف کا باہر جانے سے بدستور انکار۔ اپنی اہلیہ کلثوم نواز کے بعد تنہائی اور مایوسی کا شکار۔ بقول قریبی ذرائع کے ’اور میرے پاس اب کھونے کے لیے کچھ نہیں بچا۔ میرا اقتدار چھین لیا گیا۔ مجھے پارٹی کی سربراہی سے محروم کر دیا گیا۔ فیصلہ کن سیاسی لڑائی یہیں کیوں نہ لڑوں۔‘
شہباز شریف، معمر بزرگ والدہ، سمجھا رہے ہیں کہ وہ باہر علاج کرائیں، حالات کو سازگار ہونے دیں۔ واپس آ جائیے گا، پہلے زندگی۔ مریم نواز جنہوں نے اپنے والد کے ساتھ لندن سے واپسی اختیار کرکے گرفتاری دی تھی، اپنی سیاسی لڑائی یہیں لڑنا چاہتی ہیں۔ ان کے قریبی ذرائع کے مطابق مریم اپنے والد کو نہیں کھونا چاہتیں اور ان کو بیرون ملک علاج کے لیے رضامند کر سکتی ہیں۔
نواز شریف باہر چلے جاتے ہیں تو اپوزیشن تتربتر ہو جائے گی۔ حکومت مخالف احتجاج بھی اثر انداز، خود ن لیگ بھی کمزور پڑ جائے گی۔ یوں سمجھ لیجیے جیسے کسی بستر مرگ پر پڑے مریض کو آکسیجن سپلائی سے محروم کر دیا جائے۔
ادھر حکومتی محل، بادشاہ، وزرا حضرات شدید اضطراب کا شکار۔ وہ بھی دعاؤں میں مصروف کہ نواز شریف کو کچھ نہ ہو جائے، لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔ اَن دیکھے طاقتور دیوتا بھی پریشان، سندھ کے شہید بھٹو کے بعد پاکستان کی سیاست پنجاب کے کسی شہید کی متحمل نہیں ہو سکتی ہے۔ سیاسی حلقوں میں مفروضے گردش میں۔
محل کے باسی چاہتے ہیں کہ نواز شریف پلک جھپکتے باہر چلے جائیں۔ جہاز بھی تیار، طبیب بھی تیار۔ محور نواز شریف۔
جیسے کہانی میں طلسم کے توڑ کے حصول کے لیے سب کا محور سونے کے پنجرے میں قید طوطا اور اس کو آزاد کرنے کی کٹھن رام کہانی۔ سلطنت کے گرد طلسماتی حصار کو توڑنے کے لیے مولانا یعنی جادوگر مخالف قوتوں کا رخ تاریک دشوار گھاٹی کی طرف۔
مولانا کو اس جادوگر کی طرح سلطنت میں اپنے حصار کو قائم رکھنے کے لیے اَن دیکھے طاقتور دیوتاؤں کے آشیر باد کی ضرورت۔ دیوتا فی الوقت جادوگر سے خوش نظرنہیں آتے۔ غصے بھری سانسوں کی آوازیں، جادوگر کو اپنے کانوں میں سنائی دی جاسکتی ہیں۔ نا، نا کا ورد سن کر جادوگر کا بپھرنا۔
مولانا بھی جادوگر کی طرح غصے میں ہیں، طیش میں نظر آ رہے ہیں۔ اپنی مخالف قوتوں کو تاریک گھاٹی کی طرف موڑ رہے ہیں، خوفناک وادی جہاں شاید ٹکراؤ اور افراتفری کے سوا واپسی ممکن نہ ہو۔
تاریک گھاٹی- سیاہ سائے۔ افراتفری۔