امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اتوار کو اعلان کیا کہ دنیا کے سب سے مطلوب دہشت گرد اور داعش کے سربراہ ابوبکر البغدادی شام میں امریکی سپیشل فورسز کی کارروائی کے نتیجے میں ہلاک ہو گئے۔
ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں ٹی وی پر عوام سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا ’ابوبکر البغدادی مارے جا چکے ہیں۔‘
امریکی صدر نے کہا ہے کہ مشن کی تکمیل کے دوران کوئی امریکی ہلاک نہیں ہوا۔
انہوں نے بتایا البغدادی نے بھاگ کر ایک سرنگ میں پناہ لی ،جو بند تھی، انہوں نے سرنگ میں خود کش دھماکہ کیا جس کے نتیجے وہ اور ان کے تین جوان بچے مارے گئے۔
انہوں نے کہا البغدادی اپنے آخری لمحات میں بہت زیادہ خوف زدہ تھے۔ امریکی صدر کا دعویٰ ہے کہ وہ رو اور چیخ رہے تھے، وہ ایک’بزدل،مفرور اور رونے والے شخص‘کی طرح مارے گئے۔
اس سے پہلے امریکی صدر نے ہفتے کو رات گئے ٹوئٹر پر کہا تھا کہ’ابھی ابھی کوئی بڑا واقعہ ہوا ہے۔‘
امریکی صدر کا کہنا ہے’ البغدادی کی لاش کی شناخت ہو گئی ہے اور دنیا اب زیادہ محفوظ ہے۔‘
ٹرمپ نے کہا کہ انہیں شام میں داعش کے سربراہ کو مارنے کے لیے ہونے والا سپیشل فورسز کا آپریشن دیکھتے ہوئے ایسا محسوس ہوا جیسے وہ کوئی فلم دیکھ رہے ہوں۔
انہوں نے تجویز دی کہ فوجی کارروائی کی ویڈیو کو عام لوگوں کے لیے جاری کر دیا جائے تاکہ ’البغدادی کے پیرکاروں کی حوصلہ شکنی ہو۔‘
ٹرمپ نے کہا انہوں نے ہفتے کی رات وائٹ ہاؤس کے سچویشن روم میں بیٹھ کر امریکی فوج کا آپریشن دیکھا،۔
’امریکہ کئی ہفتے سے البغدادی کی نگرانی کر رہا تھا، آپریشن کے دوران امریکی فورسز نے نیچی پرواز کی اور بعض مقامات پر ان پر فائرنگ بھی ہوئی۔‘
امریکی صدر نے فوجی آپریشن کی فوٹیج عام کرنے کی تجویز دی تاکہ دنیا جان سکے کہ ’البغدادی نے اپنے آخری لمحات روتے اور چیختے ہوئے گزارے۔‘
ادھر ترکی نے کہا ہے کہ اس نے آپریشن کے لیے امریکہ سے تعاون کیا تھا۔
برطانیہ سے کام کرنے والے گروپ ’سیرین آبزرویٹری فار ہیون رائٹس‘ کا کہنا ہے کہ امریکہ نے صوبہ ادلب میں اُس جگہ اپنے ہیلی کاپٹروں سے سپیشل فورسز کے جوانوں کو اتارا، جہاں ’داعش سے جڑے گروہ موجود تھے۔‘
شام میں اطلاعات کا موثر نظام رکھنے والے اس گروپ نے مزید کہا ہیلی کاپٹروں نے بیرشہ گاؤں میں ایک مکان اور اس کے باہر کھڑی گاڑی کو نشانہ بنایا، جس میں داعش کے سینیئر رہنما ابو یمان سمیت نو افراد، جن میں ایک بچہ اور دو خواتین بھی تھیں، مارے گئے۔
سیرین آبزرویٹری نے البغدادی کی ہلاکت کی تصدیق نہیں کی، تاہم، سوشل میڈیا پر انتہائی متحرک داعش گروپ نے بھی اپنے لیڈر کے حوالے سے کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔
بریشہ کے باہر موجود خبر رساں ادارے اے ایف پی کے نمائندے نے ایک تباہ حال مکان اور گاڑی دیکھی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
علاقہ مکین عبدالحمید کا کہنا ہے کہ وہ رات کو ہیلی کاپٹروں کے شور اور ان سے ہونے والی گولہ باری کی آواز سن کر حملے کی جگہ پہنچے تو دیکھا کہ ایک مکان، اس کے قریب کھڑی گاڑی اور ایک خیمہ تباہ ہو چکے تھے۔ ’گاڑی میں دو افراد کی لاشیں تھیں۔‘
حالیہ ہفتوں کے دوران شمال مشرقی شام میں امریکی حمایت یافتہ شامی جمہوری قوتوں (ایس ڈی ایف) کے خلاف آپریشن میں مشغول ترکی کا کہنا ہے کہ اسے خفیہ چھاپے کی پیشگی اطلاع تھی۔
ایک ترک سرکاری افسر نے بتایا ’میری معلومات کے مطابق ابو بکر البغدادی حملے سے 48 گھنٹے پہلے یہاں پہنچے تھے۔‘
شام میں داعش کے خلاف لڑنے والے ایس ڈی ایف کے کمانڈر ان چیف نے کہا کہ آپریشن امریکی فورسز کے ساتھ ’مشترکہ انٹیلی جنس‘ کا نتیجہ تھا۔
ماضی میں متعدد باربغدادی کے مارے جانے کی خبریں سامنے آئیں جو بعد میں غلط ثابت ہوئیں۔ امریکی حکام نے اے بی سی نیوز کو بتایا کہ چھاپے میں ہلاک ہونے والوں کی بائیو میٹرک تصدیق کی جا رہی ہے۔ آج صدر ٹرمپ نے ایک تویٹ میں کہا تھا ’کچھ بہت بڑا واقعہ ہوا ہے۔‘
2014 میں داعش نے عراق اوع شام کے طول عرض پرقبضہ کر لیا تھا، جس کے بعد البغدادی نے ایک ویڈیو پیغام میں زیر کنٹرول علاقوں میں خلافت کا نظام نافذ کرنے کا اعلان کیا تھا۔
رواں سال مارچ میں ایس ڈی ایف نے داعش کو اس کےمشرقی شام میں آخری ٹھکانے سے بے دخل کر دیا تھا، جس کے بعد داعش نے گوریلا جنگ کی حکمت عملی اپنا لی تھی۔
عراق سے تعلق رکھنے والے البغدادی کے بارے میں خیال ہے کہ وہ 48 سال کے تھے۔ کبھی کبھی منظر عام پر آنے والے بغدادی 2014 میں بالکل منظر نامے سے غائب ہو گئے تھے۔
اپریل میں ان کی ایک ویڈیو سامنے آئی جس میں وہ داعش کی شکست کے بعد اپنے ساتھیوں کوبدلہ لینے کے لیے اکساتے نظر آئے۔ امریکی محکمہ خارجہ نے ان کے بارے میں معلومات فراہم کرنے پر ڈھائی کروڑ ڈالرز کا انعام مقرر کر رکھا تھا۔