لبنان کے ایک روایتی ڈرائنگ روم میں الیاس سعدی صوفے پر بیٹھے ہیں۔ ان کے سامنے ایک کافی کی میز ہے جس پر ایک گلدان رکھا ہوا ہے۔ ان کے پیروں تلے سرخ رنگ کے بڑے قالین نے حقیقت میں کمرے کو آپس میں جوڑ رکھا ہے۔
لیکن ان کے ڈرائنگ روم کے معاملے میں صورت حال کچھ مختلف ہے: یہ بیروت کی مصروف ترین شارع کے عین وسط میں واقع ہے۔
لبنان میں حکومت مخالف مظاہرے تیسرے ہفتے میں داخل ہو چکے ہیں اور اس طریقے سے سڑکیں بند کرنے کا عمل ملک کے سیاسی رہنماؤں پر دباؤ برقرار رکھنے کے لیے ایک واضح میدان جنگ اور بنیادی حکمت عملی کے طور پر سامنے آیا ہے۔ سیاسی رہنما ان بڑی اصلاحات کے مخالف ہیں جن کا مظاہرین نے مطالبہ کر رکھا ہے۔
37 سالہ تاجر سعدی کہتے ہیں: ’یہ بیروت کا داخلی راستہ ہے۔ یہ بہت اہم سڑک ہے۔ ہمارا مقصد سادہ ہے: ہم حکومت کو اس وقت تک معمول کے مطابق کام کرنے سے روک رہے ہیں جب تک وہ ہماری بات نہیں سنتی۔‘
لبنان میں گذشتہ ہفتوں میں ہونے والے مظاہرے اپنے دائرے اور نوعیت کے اعتبار سے تاریخی ہیں۔ 10 لاکھ سے زیادہ افراد سڑکوں پر نکل آئے۔ قومی یکجہتی کا ایسا مظاہرہ کم ہی کیا جاتا ہے۔ مظاہرین نے مطالبہ کیا کہ ملک میں فرقہ وارانہ بنیادوں پر قائم سیاسی نظام میں مکمل تبدیلی کی جائے اور ہر طرف پھیلی بدعنوانی کا خاتمہ کیا جائے۔
مظاہروں نے لبنان کے بڑے بڑے سیاست دانوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ وزیراعظم سعد حریری استعفیٰ دینے پر مجبور ہوگئے اور شہریوں کے احتجاج کے نتیجے میں حکومت کی جانب سے بڑے پیمانے پر اصلاحات کے وعدے کیے گئے ہیں۔
لیکن مظاہرین کہتے ہیں کہ یہ اصلاحات کافی نہیں ہیں۔ جوں جوں وقت گزرا اور سڑکوں پر آنے والے لوگوں کی تعداد میں کمی آئی تو مظاہرین نے دباؤ برقرار رکھنے کے لیے صورت حال کے مطابق اپنے طریقہ کار میں تبدیلی کی۔
28 سالہ پاؤلا ایلسٹ کہتی ہیں: ’ہمیں کچھ کرنا ہے کیونکہ وہ اس طرح ظاہر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ جیسے کچھ نہیں ہو رہا۔‘ پاؤلا بیروت کی بڑی سڑک کو بند کرنے والے چند درجن مظاہرین میں سے ایک ہیں۔
انہوں نے کہا: ’لبنان کی آدھی آبادی سڑکوں پر ہے اور ان سے جانے کا مطالبہ کر رہی ہے۔ انہیں ہمارے بنیادی حقوق دینے کا کہہ رہی ہے اور وہ ہمیں مسلسل نظرانداز کر رہے ہیں۔ انہیں ہماری بات سننی پڑے گی اور اس وقت یہ واحد راستہ ہے: ہم سڑکیں بند کریں گے اور مکمل سول نافرمانی کریں گے۔‘
سڑکیں بند کرنے کا عمل پورے ملک میں شروع ہو چکا ہے۔ بحیرہ روم کے ساتھ ساتھ جانے والی سڑک پر واقع شہروں میں، پہاڑی علاقوں کی چھوٹی چھوٹی سڑکوں پر، جنوب میں قصبوں اور دیہات اور مشرق میں وادئی بیکا میں مظاہرے کیے جا رہے ہیں۔
اس سے پہلے رواں ہفتے کے دوران گاڑی میں دارالحکومت بیروت سے لبنان کے دوسرے بڑے شہر طرابلس کی طرف جاتے ہوئے دی انڈپینڈنٹ کے نمائندے نے سڑک پر ایک درجن سے زیادہ بڑی رکاوٹیں دیکھیں۔ بعض رکاوٹیں پتھروں اور لکڑی کے ڈبوں کی مدد سے بنائی گئی تھیں اور دوسری خیموں میں تقاریب کی شکل میں منقعد کی گئی تھیں جن میں سینکڑوں افراد شریک تھے۔ ان تقاریب میں موسیقی کا اہتمام بھی کیا گیا تھا۔
بعض مظاہرین نے طنزیہ انداز میں کہا کہ لبنان میں سڑکیں اکثر کسی بھی وجہ سے بند کر دی جاتی ہیں اور بعض اوقات یہ عمل ان مسائل کا نتیجہ ہوتا جن کے خلاف مظاہرے کیے جا رہے ہیں: سیاست دانوں کے قافلے اکثر شہر کے پورے مرکزی حصے کو بند کر دیتے ہیں۔ بنیادی ڈھانچے اور عوامی ٹرانسپورٹ کی کمی کی بنا پر بھی شاہراہیں اکثر ٹریفک کی وجہ سے بند ہو جاتی ہیں۔
جگہ جگہ رکاوٹوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ مظاہروں کا سلسلہ قومی سطح پر پھیل چکا ہے۔ گہری تقسیم کے شکار لبنان میں ایسا کم ہی ہوتا ہے۔
ملک کو مفلوج کرنے کے لیے بھی مظاہرے مؤثر ثابت ہوئے ہیں۔ گذشتہ ہفتے سے سیکیورٹی فورسز نے سڑکوں کو دوبارہ کھولنا ترجیح بنا لی جس کے بعد ان کی مظاہرین کے ساتھ جھڑپیں ہوئیں۔ جمعرات کو فوجیوں نے بیروت کو شمالی لبنان سے ملانے والی شاہراہ سے وہ کوڑے دان، کاریں اورخیمے ہٹا دیے جنہوں نے راستہ روک رکھا تھا۔ دارالحکومت کے گرد گھومنے والی مرکزی سڑک بھی کھول دی گئی۔
سڑکوں کی بندش پر کچھ لبنانی شہریوں کو غصہ بھی آیا ہے۔ بڑی تعداد میں غریب شہری سڑکیں بند ہونے سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ یہ لوگ کام پر جانے سے روکا جانا برداشت نہیں کر سکتے۔ اس وجہ سے سڑکیں بند کرنے کے عمل پر تنقید کی گئی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس سے پہلے رواں ہفتے میں لبنان کی حزب اللہ پارٹی اور اس کی اتحادی امل تحریک کے حامیوں نے ان مظاہرین پر حملہ کر دیا جنہوں نے دارالحکومت بیروت کے گرد مرکزی شاہراہ بند کر رکھی تھی۔ سینکڑوں افراد کے ایک گروہ نے مظاہرین اور صحافیوں پر پتھر اور ڈنڈے پھینکے جس کے بعد انہوں نے شہر کے اندرونی حصوں پر دھاوا بول دیا اور مظاہرین کے کیمپ اکھاڑ دیے۔
حملے کے جواب میں مظاہرین نے صرف اتنا کیا کہ پھر سے سڑکوں پر واپس آ کر بیٹھ گئے اور بند کر دیں۔ اس وقت سے وہ سیکیورٹی فورسز کے ساتھ بلی چوہے کے کھیل میں مصروف ہیں۔ لیکن بیروت میں لبنانی امریکی یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس کی ایسوسی ایٹ پروفیسرتامیریس فخوری کہتے ہیں کہ ایسے آثار موجود ہیں کہ مظاہرین اپنی حکمت عملی دوبارہ تبدیل کریں گے۔
پروفیسر فخوری کہتی ہیں: ’یہ بات یقینی ہے کہ سڑکیں بند کرنے کی حکمت عملی کی مخالفت کی جاتی ہے۔ بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ یہ درست طریقہ نہیں ہے۔ تاہم سوال یہ ہے کہ نظام میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے کون سے حربے مؤثر ہیں؟ میرا خیال ہے کہ ہم ایک ہوشیار احتجاجی تحریک سے نمٹ رہے ہیں۔‘
انہوں نے کہا: ’اب وہ صرف رات کو سڑکیں بند کرتے ہیں۔ وہ معاشی زندگی کو مکمل طور پر مفلوج نہیں کرنا چاہتے اس لیے وہ مختلف انداز میں سڑکیں بند کرکے اپنی حکمت عملی نئے سرے سے وضع کر رہے ہیں۔‘
پروفیسر فخوری کہتی ہیں کہ ایک ایسے معاشرے میں سڑک بند کرنے کا حربہ ضروری ہے جہاں زیادہ تر سماجی تنظیمیں فرقہ وارانہ سیاسی جماعتوں سے وابستہ ہیں۔
ان کے بقول: ’یہ تحریک کو زندہ رکھنے کے لیے احتجاج کے مؤثر طریقہ کار کے طور پر سامنے آیا ورنہ تحریک آہستہ آہستہ ختم ہو جائے گی۔‘
’سرگرم کارکن ماضی کی حکمت عملیوں سے سیکھ رہے ہیں اور انہیں پتہ چلا ہے کہ حمایت کا حصول، مہم چلانا اور صرف چوراہوں میں احتجاج سب غیرمؤثر ثابت ہوا ہے۔ اس عمل سے نظام متاثر ہوگا اور نہ اس میں خلل پڑے گا۔ سیاستدان ان کی بات نہیں سنیں گے۔‘
اب تک حکومت نے جن اصلاحات کا اعلان کیا ہے ان سے مظاہرین مطمئن نہیں ہوئے۔ شدید معاشی بحران اور دہائیوں سے جاری بدعنوانی نے مل کر ملک کو کنارے پر لا کھڑا کیا ہے۔
لبنان میں مجموعی قومی پیداوار کے مقابلے میں قرضوں کا حجم دنیا میں سب سے زیادہ ہے جس کی وجہ کئی برسوں کی بدانتظامی ہے۔ بے روزگاری کی شرح 25 فیصد ہے اور ہزاروں تعلیم یافتہ نوجوان مواقعے کم ہونے کی وجہ سے ملک چھوڑ جاتے ہیں۔
اب پہلی بارفرقہ وارانہ سیاسی نظام، جو 1990 میں خانہ جنگی کے خاتمے کے بعد سے اس مشرقی بحیرہ روم کے ملک پر حکومت کر رہا ہے، کو اپنے خلاف عوامی تحریک سامنا ہے۔
وزیراعظم کے استعفے پر احتجاج کرنے والوں نے وہ نعرہ لگا کر ردعمل ظاہر کیا جو مظاہروں کے درمیان مقبول ہو گیا تھا: ’وہ سب کا مطلب وہ سب ہے‘۔ یہ نعرہ ملک کی تمام سیاسی رہنماؤں کو ہٹانے کے لیے لگایا گیا۔
چوراہوں میں کھڑی کی گئی رکاوٹوں کا ایک مقصد یہ ہے کہ ان کی بدولت بہت سے لبنانی شہریوں میں ایک قسم کی بیداری آئی ہے۔
الیاس سعدی نے کہا: ’وہ کہہ رہے ہیں کہ ہمارے سڑکیں بند کرنے سے معیشت تباہ ہو جائے گی۔ وہ کوتاہیوں کا الزام ہمیں دینے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن یہ بدعنوان سیاستدان اور مرکزی بینک کے گورنر ہیں جن سب نے ملکی وسائل کو لوٹا ہے۔ اسی وجہ سے ہم یہاں ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’گذشتہ دو ہفتے میں ہم نے فرقہ واریت پرقابو پا لیا ہے اور ہم نے نئی قومی شناخت پیدا کی ہے۔ ایسا ہم نے سڑکوں پر آ کر کیا ہے اور ہم احتساب تک سڑکوں سے نہیں جائیں گے۔‘
© The Independent