عراق کے دارالحکومت بغداد اور جنوبی علاقوں میں جمعرات کو تیسرے روز بھی جاری رہنے والے پر تشدد مظاہروں کے نتیجے میں 31 افراد ہلاک ہو گئے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ہزاروں عراقی شہری کرفیو، آنسو گیس اور فائرنگ کی پروا کیے بغیر ٹرکوں میں سوار ہو کر بدعنوانی، بنیادی سہولتوں کی کمی اور بے روز گاری کے خلاف غصے کا اظہار کرنے کے لیے سڑکوں پر پہنچ گئے۔
بدعنوانی، بنیادی سہولتوں کی کمی اور بے روز گاری وزیراعظم عادل عبدالمہدی کی حکومت کے لیے اب تک کے سب سے بڑا چیلنج ہیں۔
مظاہرے شروع ہونے کے بعد وزیراعظم نے جمعے کی صبح ٹیلی ویژن پر عوام سے پہلا خطاب کیا۔ انہوں نے حالیہ واقعات کو ’ملک کی مکمل تباہی‘ قرار دیا لیکن مظاہرین کے مطالبات کا براہ راست جواب دینے سے گریز کیا۔
انہوں نے اپنی حکومت کی کامیابیوں کا دفاع کرتے ہوئے وعدہ کیا کہ ضرورت مند خاندانوں کو ماہانہ وظیفہ دیا جائے گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ انہوں نے گذشتہ سال اصلاحات کے جس ایجنڈے کا وعدہ کیا تھا اس کے نفاذ کے لیے وقت دیا جائے۔
وزیراعظم عادل عبدالمہدی شہریوں کے ساتھ رابطے کے لیے اب تک تحریری بیانات کو ترجیح دیتے رہے ہیں حالانکہ ریاستی ذرائع ابلاغ نے کہا ہے کہ انہوں نے مظاہرین کے نامعلوم رہنماؤں سے ملاقات کی ہے۔
اس سے چند گھنٹے پہلے ہی بغداد میں ہجوم نے وزارت تیل اور صنعت کا گھیراؤ کرلیا تھا۔
ایک بے روزگار یونیورسٹی گریجویٹ 22 سالہ علی نے کہا: ’ہم حکومت کے خاتمے تک احتجاج جاری رکھیں گے۔ میری جیب میں صرف ڈھائی سو لیرا (20 امریکی سینٹ) ہیں جبکہ سرکاری حکام لاکھوں ڈالر کے مالک ہیں۔‘
زیادہ تر مظاہرین نے عراقی پرچم اٹھا رکھے تھے جبکہ دوسروں کے ہاتھوں میں بینر تھے جن پر حضرت امام حسین علیہ السلام کا نام درج تھا۔
پولیس اور فوج نے گاڑیوں پر رکھے خود کار ہتھیاروں کا رخ نیچے کی طرف کرکے فائرنگ کی جس سے گولیاں زمین سے ٹکرا کر مظاہرین کو لگیں۔ زخمی ہونے والوں کو رکشے میں سوار ہو کر ہسپتال لے جانا پڑا۔
مظاہرے میں شامل ابوجعفرنے کہا: ’پولیس عراقی شہریوں پر اس طرح فائرنگ کیوں کرتی ہے۔ پولیس اہلکار ہماری طرح مسائل کا شکار ہیں۔ انہیں چاہیے کہ وہ ہماری مدد کریں اور ہمیں تحفظ دیں۔‘
مظاہروں کا آغاز منگل کو بغداد سے ہوا تھا، جو بعدازاں جنوب میں شیعہ اکثریتی علاقوں تک پھیل گیا۔ متعدد شہروں میں کرفیو لگا دیا گیا ہے لیکن مظاہرین اس کی پرواہ کیے بغیر سڑکوں پر نکل رہے ہیں۔
دوسری جانب شمال میں کردوں کے علاقوں اور مغرب میں اہلِ سنت کے صوبوں میں نسبتاً امن ہے۔
جنوبی عراق میں بڑے پیمانے پر احتجاج کرنے والے شہری ایک سال سے زیادہ عرصے سے اپنی تکلیف کا اظہار کر رہے ہیں۔ یہ سلسلہ پانی کے شدید بحران کے بعد شروع ہوا تھا۔ پانی کی قلت کی وجہ سے صحت کے مسائل پیدا ہوئے۔ اُس وقت سے شہری مرکزی حکومت پر الزام لگاتے آ رہے ہیں کہ وہ لوگوں کے بنیادی مسائل حل کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔
خاص طور پر بے روزگاری کے سنگین مسئلے پر عوامی غصے میں بے حد اضافہ ہوا ہے جس کی شرح عالمی بینک کے مطابق تقریباً 25 فیصد یا مجموعی طور پر اس سے دگنی ہے۔
سرکاری دفاتر کی بندش اور شعلہ بیان شیعہ رہنما مقتدیٰ الصدر کی طرف سے ’عام ہڑتال‘ کی کال کے بعد صورت حال مزید کشیدہ ہو گئی ہے۔
2016 میں بغداد میں ہونے والے بڑے مظاہروں میں مقتدیٰ الصدر کا ہاتھ تھا۔ ان کے حامیوں نے شہر کے گرین زون پر دھاوا بول دیا جہاں کچھ وزارتیں اور غیرملکی سفارت خانے واقع ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اس بار ان کی مداخلت کہیں زیادہ محدود ہے لیکن اگر ان کے حامی بڑی تعداد میں مظاہروں میں شامل ہو گئے تو اس بات کا امکان ہے احتجاجی مظاہروں کا دائرہ وسیع ہو جائے گا۔
ملک کے اعلیٰ شیعہ رہنما آیت اللہ علی سیستانی کی جانب سے اشارے کی بھی توقع کی جا رہی ہے جو آج ان کے جمعے کے خطبے کے دوران کیا جا سکتا ہے۔
گذشتہ تین دن میں ہلاک ہونے والوں میں سے آدھے جنوبی شہر ناصریہ میں مارے گئے۔ صرف جمعرات کو گولیاں لگنے سے سات مظاہرین ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے۔
انٹرنیٹ سروس بند
انٹرنیٹ تک رسائی عملی طور پر بند ہے۔ مظاہرین ایک دوسرے کے ساتھ رابطے کی کوششیں کرتے رہے یا تازہ جھڑپوں کی فوٹیج پوسٹ کی۔
سائبرسیکیورٹی اور انٹرنیٹ کی نگرانی کرنے والی غیر سرکاری تنظیم نیٹ بلاکس کے مطابق نیٹ ورک آپریٹرز نے ’جان بوجھ‘ کر انٹرنیٹ سروس بند کر دی ہے جس کی وجہ سے 75 فیصد عراق میں سروس میسر نہیں ہے۔
اقوام متحدہ، یورپی یونین اور برطانیہ، سب نے عراق میں حالات پرسکون رکھنے کی اپیل کی ہے جبکہ انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے مظاہرین کے خلاف حکومتی کارروائی کی مذمت کی ہے۔
ایمنسٹی کی لین مالوف نے کہا: ’یہ شرمناک بات ہے کہ عراقی سیکیورٹی فورسز طاقت کا غیرضروری اور مہلک انداز میں استعمال کرتے ہوئے مظاہرین سے بار بار اتنے پرتشدد طریقے سے نمٹتی ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ انٹرنیٹ بلیک آؤٹ جابرانہ اقدام ہے جس کا مقصد مظاہروں کو کیمروں اور دنیا کے نظروں سے ہٹانا ہے۔