تیل پیدا کرنے والی سعودی عرب کی سرکاری کمپنی سعودی آرامکو دنیا کی سب سے منافع بخش کمپنی ہے اور تمام امکانات کو دیکھا جائے تو یہ سب سے زیادہ بیش قیمت بھی اور کوئی بھی اس کے شیئرز خرید سکتا ہے۔
یہ وہ باتیں ہیں جو سعودی حکام نیلامی کے وقت بولی لگانے والوں کو بتائیں گے۔ آرامکو سرکاری اجارہ داری میں قائم وہ کمپنی ہے جو دنیا کے سب سے بڑے تیل کے ذخائر کو کنٹرول کرتی ہے۔
آرامکو کے چیئرمین یاسر الرومیان کا کہنا ہے کہ ریاستی تیل کمپنی ریاض میں ہونے والی نیلامی کے باوجود بھی تیل کی عالمی فراہمی کی مانگ کو پورا کرتی رہے گی۔
حکومت اس کمپنی کا صرف ایک چھوٹا حصہ فروخت کر رہی ہے، یعنی دو فیصد سے بھی کم۔ اس کے باوجود بھی یہ دنیا کا اب تک کا سب سے بڑا آئی پی او ہو گا۔
یہاں بہت ساری باتیں گڈ مڈ ہو گئی ہیں۔ ایک یہ کہ آیا یہ سرمایہ کاروں کے لیے اچھا موقع ہے؟ اس تناظر میں عالمی سرمایہ کار برادری کی طرف سے مزاحمت سامنے آئی ہے اور بظاہر ایسا لگتا ہے جیسے اس کی بولی سعودی حکومت کی امید کے برعکس کم ہو گی۔
لیکن علمِ ریاضی کے لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ ایک بہتر سرمایہ کاری ہے کیونکہ خریداروں کو ان کا سٹاک سستے داموں مل رہا ہے۔
مجھے لگتا ہے کہ سوال یہ ہے کہ اگر کوئی تیل میں سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے تو وہ یہاں سرمایہ کاری کرے گا یا کسی بڑی تیل کمپنی مثلاً شیل، بی پی یا ایگزون کے شیئرز خریدنا پسند کرے گا۔ اس کا جواب آسان نہیں ہے۔
اگلا سوال یہ ہے کہ کیا فوسل ایندھن میں سرمایہ کاری کرنا اچھی بات ہے۔ بہت سارے لوگوں کے لیے یہ ایک اخلاقی مسئلہ ہو گا جو ایسی کمپنیوں میں سرمایہ کاری نہیں کرنا چاہیں گے جن کو وہ گلوبل وارمنگ کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔
دوسروں کے لیے یہ مسٔلہ ہے کہ وہ تیل کی قیمت پر زیادہ انحصار نہیں کرنا چاہتے۔
بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ناروے کا خود مختار ویلتھ فنڈ اپنی اُن کمپنیوں کو حصص سے محروم کرنا چاہتا ہے جو صرف اور صرف تیل اور گیس کی تلاش کا کام کرتی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ فی الحال کم از کم ضم شدہ تیل کمپنیوں میں اپنے مفادات برقرار رکھے گا۔ آرامکو کے معاملے میں آپ عالمی سطح پر ڈسٹری بیوشن کی بجائے بنیادی طور پر پروڈکشن اور ریفائننگ میں سرمایہ کاری کر رہے ہوں گے، جس سے تیل کی قیمت انتہائی اہم ہو جاتی ہے۔
یہاں بنیادی مالی سوالات نہ صرف تیل کی قیمت کے بارے میں ہیں بلکہ اُس ٹائم فریم کے بارے میں بھی ہیں کہ تیل اور گیس کو کب توانائی کے دیگر متبادل ذرائع سے تبدیل کر دیا جائے گا۔ اس پر حتمی فیصلہ سرمایہ کاروں کو ہی کرنا ہوگا۔
اگلا سوال کارپوریٹ گورننس کا ہے۔ قومی اجارہ داری میں قائم صنعتوں کے لیے کمرشل کمپنیوں کی ترجیحات مختلف ہوتی ہیں۔ داخلی شراکت داروں اور قومی حکومت کی جانب سے دباؤ کا جواب دینا مجموعی طور پر انویسٹمنٹ کمیونٹی کے لیے مختلف تجربہ ہو گا۔
آرامکو میں جو بھی سرمایہ کاری کرے گا اسے قبول کرنا ہو گا کہ ان کے سرمائے کا کنٹرول سعودی حکومت کے پاس ہی رہے گا اور انہیں اس صورت حال پر مطمئن بھی رہنا ہو گا۔ آپ اس پر بحث کر سکتے ہیں کہ امریکہ میں بہت ساری بڑی اور نئی ٹیکنالوجی کمپنیوں کے حصص پر ان کے بانی سرمایہ کاروں کا کنٹرول برقرار ہے اور انہوں نے دوسرے سرمایہ کاروں کی حوصلہ شکنی نہیں کی۔
لیکن آرامکو ایک بالکل الگ معاملہ ہے، جس کا ایک ہی شیئر ہولڈر ہے جس کے قومی مفادات ہیں اور یہ قومی مفادات سب سے پہلے آئیں گے۔
اس کے بعد سعودی عرب میں سرمایہ کاری کرنے میں سیاسی خطرہ پیدا ہونے کا سوال ہے۔ یہاں میرا خیال یہ ہے کہ تمام حکومتوں اور حکمرانوں میں ایک چیز مشترک ہوتی ہے جسے ’کنٹری رسک‘ کہا جاتا ہے۔
آپ کو کبھی معلوم نہیں ہوگا کہ کب کوئی پارٹی ایسی طاقت حاصل کرلے جو سرمایہ کاری کے قواعد کو بدل دے۔ شاید کسی صنعت کو قومی دائرے کار میں لا کر، شاید غیر ملکی سرمایہ کاری پر ٹیکس کی پالیسی میں تبدیلی کر کے یا کرنسی کی قدر کو کم کرنے والی پالیسیاں لا کر۔ یہ سلسلہ لامتناہی ہے۔
ملک میں سرمایہ کاری کرنا خطرہ مول لینے جیسا ہے۔ جسے برطانیہ کے سرمایہ کار جانتے ہیں۔ کچھ ممالک ایسے ہیں جہاں خطرات دوسروں سے زیادہ ہیں اور کچھ ایسے بھی ہیں جہاں بہت سے لوگ سیاسی وجوہات کی بنا پر سرمایہ کاری نہیں کریں گے۔ لیکن میرا مشورہ یہ ہو گا کہ سعودی عرب میں بہت سی دیگر ابھرتی ہوئی معیشتوں کے مقابلے میں خطرہ زیادہ نہیں ہے۔
آخر میں سرمایہ دارانہ نظام کے مستقبل اور مخلوط مارکیٹ کی معیشت کے بارے میں ایک سوال رہ جاتا ہے۔ وہ یہ کہ کیا عالمگیریت کا عمل جاری رہے گا اور یہ مزید پھولے پھلے گا؟
حالیہ مہینوں میں سرمایہ دارانہ نظام میں تیزی کا رجحان رہا ہے اور یہ وہ وقت ہے جب امریکی حصص کی قیمتیں سب سے بلند سطح پر ہیں۔ پھر بھی آپ کو پوچھنا ہے کہ وہاں مزید کیا ہو سکتا ہے؟ لوگ اپنی جمع پونجی گلوبل ایکویٹیز کے علاوہ اور کہاں رکھ سکتے ہیں؟ حکومتی بانڈ کی صورت میں جو منافع میں نہیں جا رہے؟ کیش کی صورت میں؟ سونے کی صورت میں؟ یا جائیداد کی شکل میں؟ یقینی طور پر اس میں بھی خطرات ہیں۔
اب یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا کی سب سے زیادہ منافع بخش کمپنی کی جانب سے کی جانے والی پیش کش عالمی سرمایہ کاری کے لیے کشش کا باعث ہے۔
لیکن میری پیش گوئی یہ ہے کہ اس کا ٹرن آؤٹ اعتماد کا سبب بنے گا کیوں کہ دنیا کا معاشی اور مالی نظام اپنی بہت ساری خامیوں کے باوجود ابھی کچھ عرصہ زندہ رہے گا۔
© The Independent