ایک بات تو اب واضح ہو گئی ہے کہ عمران خان استعفیٰ نہیں دیں گے۔ تین اکتوبر کو مولانا فضل الرحمٰن کے آزادی مارچ کے اعلان سے لے کر آج اسلام آباد میں دھرنے کو بیٹھے ہوئے ایک ہفتہ ہونے تک حالات میں کافی تبدیلیاں آئی ہیں۔
نواز شریف کی ناساز طبعیت سے لے کر ان کی اور مریم نواز کی ضمانت یہاں تک کہ نواز شریف کو ان کے اپنے ہی خاندانی ہسپتال شریف سٹی منتقل کرنے اور بڑے ڈاکٹر صاحب کا یہ مشورہ کہ نواز شریف کے کئی ٹیسٹس صرف بیرون ملک ہی ہو سکتے ہیں ان میں عقل والوں کے لیے کئی نشانیاں ہیں۔
یہ کالم منگل کی رات گئے لکھنے تک مریم نواز کی ضمانت کے باوجود رہائی نہیں ہو سکی اور خبر یہ ہے کہ رہائی کے احکامات جاری نہ کرنے کے پیچھے ضمانت مطلوب ہے کہ مریم نواز آزادی مارچ میں شرکت نہیں کریں گی اور کچھ عرصہ سیاسی خاموشی اختیار کرتے صرف والد کی تیمارداری پر توجہ مرکوز رکھیں گی۔
میری ذاتی رائے میں نواز شریف کو علاج کے لیے بیرون ملک چلے جانا چاہیے اور مریم نواز کو ان کے ہمراہ ہونا چاہیے۔ ن لیگ ویسے بھی ڈرائنگ روم پارٹی بنتی جا رہی ہے۔ مولانا کے آزادی مارچ میں لیگی کارکنان کی عدم شرکت اور لاہور جیسے گڑھ میں کارکنان تو چھوڑیے رہنما تک مولانا سے پردہ نشین رہے ایسے میں انقلابی سیاست محض دیوانے کا خواب ہی کہلائی جا سکتی ہے۔ ویسے بھی جنگ میں ہمیشہ پیش قدمی ہی مقدم نہیں ہوتی کبھی کبھی ذرا سی اختیاری پسپائی آگے بڑھنے کے راستے ہموار کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔
مولانا کا دھرنا بھی اب چند دن کا مہمان نظر آتا ہے سو ن لیگ کی قیادت کے لیے حالات کا بار بھی باہر جانے میں اب رکاوٹ نہیں رہے گا۔ نواز شریف کے لیے سیاسی بقا اور مریم نواز کی سیاسی نشونما کے امکانات بیرون ملک تو برقرار رہ سکتے ہیں لیکن موجودہ حالات میں ملک کے اندر ناممکنات میں سے ہے۔ ن لیگ کا کارکن اپنے قائد کی طبعیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ویسے ہی ذہنی طور پر تیار ہے۔ نواز شریف اور مریم نواز باہر چلے جائیں تو ہو سکتا ہے دیگر رہنماوں کو بھی سیاسی ریلیف مل سکے۔ سو ہر لحاظ سے یہ کم از کم ن لیگ کے لیے گھاٹے کا سودا نہیں۔ عمران خان کو بھی اگر کامیاب حکومت چلانی ہے تو سود مند ہوگا کہ یہ دونوں سیاسی حریف ملک سے باہر ہوں اور حکومت پر سیاسی طور پر کوئی ناجائز بوجھ نہ ہو۔
یہ بھی ممکن ہے کہ علاج کے لیے بیرون ملک روانگی مشروط یا ضمانتی ہو۔ فی الحال تو عمران خان کو مولانا فضل الرحمٰن کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ وہ ان کی حکومت کو نئی زندگی بخشنے لگے ہیں۔ کالم کے آغاز میں کہا کہ اب تو واضح ہوگیا کہ عمران خان استعفیٰ نہیں دیں گے ادھر مولانا کی گفتگو میں بھی لچک آئی اور وہ اسلام آباد سے استعفیٰ لے کر ہی جائیں گے کے سخت ترین مطالبے سے پسپائی اختیار کرتے یا پیشرفت کرتے پورے ملک کو جلسہ گاہ بنا کر استعفیٰ لینے کے عزم تک آگئے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کچھ سوالات بہرحال تاحال جواب طلب ہیں۔ کیا واقعی مولانا کو اسلام آباد آمد کی آشیر باد حاصل تھی یا انہیں اپنے زورِ بازو پر یقین کامل تھا؟ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے سمجھانے کے باوجود مولانا نے جب یک طرفہ اعلانِ آزادی مارچ کیا تو تب اگر مولانا کو دیگر سیاسی جماعتوں کی ضرورت محسوس نہ ہوئی تو بعد میں انہی کے ذریعے کامیابی کی توقعات کیوں جوڑ لی گئیں؟ مولانا فضل الرحمٰن جیسا زیرک سیاستدان کیا حالات و واقعات و امکانات کا غلط اندازہ لگا بیٹھا؟ کئی ایسے سوالات ہیں جن کے جواب درکار ہیں مگر مولانا اِس معاملے پر خاموش ہیں۔ پنڈی سے آنے والے ایک بیان اور پھر پنڈی کانفرنس کے دوٹوک اعلان نے بھی حالات کو نرم کرنے میں کردار ادا کیا۔ فی الوقت تو اپوزیشن حکومت مذاکرات جاری ہیں لیکن جو مجھے نظر آ رہا ہے کہ انتخابی اصلاحات اور دھاندلی سے متعلق پارلیمانی کمیٹی یا کمیشن کو فعال کرنے یا جوڈیشل کمیشن قائم کرنے جیسے لالی پاپ سے فی الحال اپوزیشن کو ٹال دیا جائے گا۔
ن لیگ مولانا کے دھرنے کا حصہ نہ بننے کا غیراعلانیہ اعلان کر چکی، پیپلز پارٹی بھی مولانا کے دھرنے کا حصہ نہیں بنے گی۔ وزیر اعظم کو ہٹانے کے لیے پارلیمانی راستے اختیار کرنے میں بھی اپوزیشن کو دقت اور مصلحت ہے۔ تحریک عدم اعتماد کا حشر چیئرمین سینیٹ کی تبدیلی والے معاملے جیسا ہونے کا خدشہ ہے جس کی تحقیقات کا آج تک پتہ نہ چل سکا۔ اسمبلیوں سے استعفے کا زبانی کلامی دعویٰ تو کیا گیا ہے لیکن ن لیگ پیپلز پارٹی دل سے اس کی حامی نہیں۔
کیا مولانا فضل الرحمٰن نے خود کو از خود بند گلی میں بند کر دیا؟ کیا گھاٹے کا سودا کر لیا؟ کم از کم مولانا نے کراچی سے اسلام آباد تک کا کشت اس واسطے تو نہ اٹھایا ہوگا کہ فرہاد بنیں وہ اور دودھ و شہد کی شیریں نہر کے گھونٹ بھرے کوئی اور۔ کم از کم ن لیگ اور پیپلز پارٹی کو ریلیف دلوانے تو مولانا صاحب نے آزادی مارچ نہیں نکالا۔ اس مشق سے وہ اپنے واسطے کیا جمع کرتے ہیں سب کو اس کا انتظار ہے اور خود مولانا کو بھی۔
عمران خان کو تو تھینک یو مولانا بولنا چاہیے کہ اگر وہ اسلام آباد سے استعفیٰ لیے بغیر واپس روانہ ہو گئے تو اگلے چار سال کا سکون عمران خان کی جھولی میں ڈال جائیں گے۔ یہ ضرور مولانا فضل الرحمٰن کی کامیابی ہے کہ وہ سخت گیر خان جو مولانا کا نام تک سننا گوارا نہ کرتا تھا اپوزیشن کو خاطر میں نہ لاتا تھا آج اسی کی پارٹی اور حکومت کے اعلیٰ ترین وزرا روزانہ مولانا کے در پر آن بیٹھے ہیں۔ مولانا نے عمران خان کو کم از کم یہ جمہوری رویہ تو سکھا دیا کہ سیاست میں ہمیشہ مفاہمت اور بات چیت کی لچک کا مظاہرہ کرنا ہی درکار ہوتا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان یہی بات چیت، گفت و شنید ، مذاکرات باہمی احترام سے ہوتے رہیں تو ہی ملک آگے بڑھے گا۔
آزادی مارچ کے کنٹینر سے مولانا بار بار ’نئے عمرانی معاہدے‘ کا ذکر کرتے ہیں۔ میرے نزدیک فی الوقت کسی نئے عمرانی معاہدے کی ضرورت نہیں۔ محض ضرورت ہے پارلیمان کو فعال کرنے کی، پارلیمان کو مقدم جان کر یہیں گفتگو کرنے کی تاکہ ہر قسم کے عوامی و سیاسی مسائل یہیں حل ہوں۔ اب حکومت کو بھی اپنے رویوں اور لہجوں میں دیر پا نرمی دکھانی ہو گی۔ پارلیمان میں ہجوم و ہنگامہ برپا کرنے سے گریز کرنا ہوگا۔
سب مل کر پائیدار درمیانی راستہ نکالیں تا کہ اسلام آباد کی سردی میں سخت ٹھٹھرتی سڑکوں پر بیٹھا مدرسے کا طالب علم واپس اپنی درس گاہ کی مادرانہ درودیوار کی پناہ میں جا سکے اور اپنے درس و علم کی حرارت سے خود کو محفوظ کر سکے۔ اسلام آباد کے مغربی تعلیم کے ادارے تو واپس اپنے معمولات کی طرف رواں دواں ہوگئے، مدرسوں کے ان نوجوانوں کا بھی حق ہے کہ یہ واپس جلد از جلد اپنے تدریسی عمل کو لوٹ سکیں۔
اسلام آباد میں گزارے چند دنوں نے ان کے سیاسی و سماجی شعور میں مزید اضافہ تو لازماً کیا ہے لیکن اول و آخر ان کے حقوق کے تحفظ کی ذمہ داری حکومت کی ہے۔ تمام فریق اپنے اپنے مرکز میں لوٹیں گے تو ملک کے لیے بہتری ہوگی استحکام میں اضافہ ہوگا۔ ملک کا تاثر ہوگا تو نہ صرف سرمایہ کاری بڑھے گی، معیشت ترقی کرے گی، عوام خوشحال ہوگی لیکن اس کے لیے فی الحال کلیہ صرف ایک ہے: عمران خان کو چلنے دیں؛ پارلیمان کو چلنے دیں۔