اسلام آباد میں جمعیت علمائے اسلام کا دھرنا پورے زور و شور سے جاری ہے۔ اسے پہلے آزادی مارچ کہا گیا تھا، بعض لوگ اب بھی اسی بات پر بضد ہیں لیکن سات دن سے یہاں بیٹھے لوگوں کو مارچ کا نام کیسے دیا جا سکتا ہے؟
انڈپینڈنٹ اردو نے دھرنے کے حالات جاننے کے لیے یہاں آنے کا فیصلہ کیا۔ ٹیم اس نتیجے پر پہنچی کہ یہ دھرنا انتہائی منظم طریقے سے جاری ہے۔ رضاکار فورس (انصار الاسلام) بالکل مشینی طریقے سے لوگوں کو کنٹرول کر رہی ہے۔ جہاں زیادہ مجمع لگتا ہے وہاں انہیں ہٹانے کے لیے رضاکار پہنچ جاتے ہیں، جہاں کسی کو مدد کی ضرورت ہے وہاں ان کا نمائندہ پہنچ جاتا ہے اور جہاں راستوں میں اہلیان دھرنا کو مخصوص ٹریک پر چلانا مقصود ہے وہاں بھی رضاکار پہلے سے تعینات ہیں۔ فالتو وقت میں وہ اپنی مقرر جگہوں پر ہی بیٹھ جاتے ہیں یا پریڈ کرتے رہتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایک چیز بہت انوکھی یہ نظر آئی کہ کھانا وہ لوگ اپنے پیسوں سے کھا رہے ہیں۔ پچھلے دھرنوں کی طرح کھانے کے وقت ’بندوبست‘ نہیں کیا جاتا، ہر شریک اپنے ساتھ کھانے پینے کی اشیا وافر لایا ہے۔ جو نہیں لایا وہ قیمتاً خرید کر کھا سکتا ہے۔
دھرنے کے شرکا سے اسلام آبادی شہریوں کی مشکلات کے بارے میں جب سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ملک میں بہتری لانے کے لیے چھوٹی قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔ شرکا میں سے کوئی بھی اپنی قیادت کے حکم کےبغیر وہاں سے ٹلنے پر تیار نظر نہیں آتا۔ ان کے پاس کھانا، پانی، بستر، لوٹے اور فراغت سبھی کچھ ہے اور وہ اگلے حکم کے لیے چوکس ہیں۔
اس دھرنے کے سیاسی رجحانات، پرانے اور نئے دھرنے میں فرق، مولانا کی سیاسی پوزیشن پہ اس کا اثر اور بہت سے دیگر عوامل انڈپینڈنٹ اردو کی ٹیم اپنی گفتگو میں زیر بحث لائی۔